زندگی ڈھلتے سورج کی مانند
ازقلم: زونیرا شرافت ( لاہور)
![]() |
pixabay |
آئمہ اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی کیاری کے پاس بیٹھی کسی سوچ میں گم تھی کہ اتفاق سے ادھر سے اس کی دوست نے آ کے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور آئمہ ڈر گئی . "ارے آئمہ! کیا ہوا سب ٹھیک تو یے ناں اور کس گہری سوچ میں گم ہو ؟" اس کی دوست نے نہایت پیار سے پوچھا آئمہ نے ہلکی سی آواز میں بس ہاں بولا.
عریشہ سمجھ گئی کہ ضرور اس خاموشی کے پیچھے کوئی خاص وجہ ہے جو آئمہ چھپا رہی ہے مجھ سے. "آئمہ ! ادھر میری طرف دیکھو اور سچ سچ بتاؤ کیا ہوا ہے ؟ میں تمھیں اس طرح اداس نہیں دیکھ سکتی . " آئمہ بولی "بس یار کیا بتاؤں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب اپنے ہی خود غرض ہو جائیں تو پھر دوسروں سے کیسی شکایت ؟" "آئمہ! مجھے کھل کر ساری بات بتاؤ گی یا پھر ایسے پہیلیاں ہی بجھاتی رہو گی ؟"
عریشہ آئمہ کی بہت ہی اچھی دوست ہے اور اس کا تعلق ایک تربیت یافتہ گھرانے سے ہے۔ آئمہ اس سے اپنی ہر بات شیئر کرلیتی .
"جی عریشہ وہ اصل میں میری اور حسن کی کسی بات پر لڑائی ہو گئی تھی تو اس نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے.(حسن آئمہ کا شوہر ہے ) افسوس اس بات کا ہے کہ وہ میری ایک بار بات تو سن لیتا یہ تو اس کا فرض ہے .
اور لڑائی اس بات پر ہوئی کہ میری ساس نے میرا زیور چوری کر لیا اور میں نے اپنی ساس اور سسر کو باتیں کرتے ہوئے سن لیا اور حسن کو بتایا اور اس نے غصے میں آ کر مجھے گھر سے نکال دیا ." دیکھو آئمہ! (عریشہ بولی ) "یہ زندگی ڈھلتے سورج کی مانند یے اور یہ سب کچھ تو دنیا کا مال ہے اور یہیں رہ جانا ہے اور آخرت میں صرف اور صرف ہمارا نامہ اعمال دیکھا جائے گا جس کے گناہوں کا پلڑا بھاری ہو گا اس کا انجام بھی برا ہو گا . اب تم سب کچھ بھول جاؤ اور تمھارا فرض تھا کہ حسن بھائی کو سچ بتانا وہ تم نے اپنا فرض ادا کر دیا اور مجھے پورا یقین یے کہ اس بات کا حسن بھائی کو ضرور احساس ہو گا اور وہ تمھیں جلد ہی لینے آئیں گے."
"جی عریشہ تم بہت اچھی ہو تمھارے آنے سے میرے سارے غم دور ہو جاتے ہیں . اب چلو چائے پیتے ہیں میں تو باتوں باتوں میں تم سے چائے پوچھنا ہی بھول گئی۔" ابھی دونوں اٹھ کے اندر جانے ہی لگی تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی اور دروازے پر حسن ہی تھا جو آئمہ کو اپنے ساتھ لینے آیا تھا . "چلو آئمہ چلیں گھر امی کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی ہے وہ تمھیں بلا رہی ہے"۔ آئمہ نے جلدی سے چادر اوڑھی اور بغیر کوئی سوال کیے چپ چاپ حسن کے ساتھ چل پڑی .
گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے اپنی ساس کے پاس گئی جو کہ آئمہ کو دیکھ کر رونے لگی . "آئمہ بیٹا مجھے معاف کر دو .مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے جس کی سزا مجھے دنیا میں ہی مل گئی ." آئمہ اپنی ساس کے گلے لگ جاتی ہے" نہیں نہیں امی آپ کو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں . میرے دل میں آپ کے لیے ابھی بھی وہی جگہ ہے جو کہ پہلے دن تھی . بس آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے میرے لیے یہی کافی ہے . اب بس جلدی سے آپ ٹھیک ہو جائیں ." حسن جو پاس کھڑا آئمہ کی باتیں سن کے خوش ہو جاتا ہے یوں سب ایک ساتھ پھر سے ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
https://hifsaalmas.blogspot.com/ پرمزید آپ پڑھ سکتے ہیں ۔ تحریر پڑھنے کے لیے لنک پہ کلک کیجیے۔
8 Comments