Hifsaalmas

زندگی تیرے دیکھ تیرے دیدہ تمسخر کی قسم از قلم نگین انجم

 زندگی  دیکھ تیرے دیدہ تمسخر کی قسم

کالم نگار ؛ نگین انجم 


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

كُلُّ نَفۡسٍ ذَآٮِٕقَةُ الۡمَوۡتِ‌ؕ

ترجمہ؛-

" ہر شخص موت کا مزہ چکھنے والا ہے." (آل عمران : ١٨٥)

مکان کو گھر اور گھر کو جنت بنانے والے مکین گیلی مٹی تلے دھنس گئے ہیں۔ پانی کا قاتل ریلہ آیا اور کسی دو منہ والے اژدھے کی طرح ننھے پھول، کُرِیج بدن اور بے زبان جانوروں جیسے خراج لے گیا۔ ہر ذی روح نےموت کا مزہ چکھنا ہے مگر خدایا یہ کون سا قہر برس رہا ہے کہ زمین کے ذرے ذرے سے پانی کے سفاک ریلے بہہ نکلے ہیں۔اپنوں کے دکھ کو دیکھ کر روح کے ساتھ ساتھ قلم بھی اذیت میں مبتلا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کی بے بسی کو دیکھ کر آنکھیں اشکبار ہیں۔ کہیں وہ بزرگ ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے نا جانے کتنے برسوں سے سامان(جہیز) محفوظ کرنے میں مصروف تھے تو کہیں وہ کسان ہیں جو فصلوں کو لہلہاتا دیکھنے کے خواب سجائے بیٹھے تھے۔ کہیں وہ مائیں ہیں جو بغیر پردے کے گھروں سے باہر قدم نہ رکھتی تھیں ،مگر آج چھت جیسی نعمت کے لیے بھی نم آنکھوں سے فقط آسمان کی جانب دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتیں۔۔۔۔پانی ان کی اوڑھنیاں تک ساتھ بہا لے گیا ہے۔ تو کہیں وہ معصوم ننھی کلیاں ہیں جنہوں نے ابھی زندگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنا تھا ۔

یا الہی! میں چوتھی جماعت کی ننھی کلی نمرہ کا دکھ کن الفاظ میں بیان کروں کہ جو سیلاب کے بعد کیچڑ اور گارے میں سے اپنی کتابیں اکھٹی کر رہی ہے ۔ جو بے حد پریشانی کے عالم میں اپنی آنکھوں میں بے سروسامانی لیے اس بات کا اظہار کر رہی ہے کہ میرا سب کچھ پانی کے ساتھ بہہ گیا ۔۔۔میرا کوئی نہیں ،میری فقط یہ دو کتابیں بچی ہیں۔۔۔۔۔۔ میں آگے کس طرح پڑھوں گی ،میں کس طرح سکول جاؤں گی ؟ میرا تو


بھائی بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اور نہ جانے کتنے وسوسے اور خیالات لیے وہ ایک ایک لمحہ کس کسک  کے ساتھ بسر کر رہی ہے۔

میں ان لوگوں کا ذکر تسلی کے کن حروف میں لپیٹ کر اپنے کالم میں بیان کروں کہ ان کی ایک ایک آہ ،ایک ایک سسکی ان بے رحم لوگوں کو محسوس ہو سکے جو بیرونِ ملک عیاشیوں میں مصروف ہیں۔

تاریخ گواہ رہے گی کہ ۲۰۲۲ء میں بےشمار قیمتی جانیں کس طرح سیلاب کی نظر ہو گئیں ۔

واللہ،  وہ پانچ بھائی ۔۔۔۔۔ خیبر پختونخوا کے وہ پانچ بھائی جو مسلسل چار گھنٹوں سے سیلاب میں پھنسے مدد کے متلاشی رہے،چینختے رہے ، چلاتے رہے ،مسلسل مدد طلب کرتے رہے ۔ مگر ان کی مدد کو ایک ہیلی کاپٹر تو دور کوئی بندۂ بشر بھی نہ آسکا۔ چاہ کر بھی ہم ان کی مدد نہ کر سکے اور آخر کار وہ بے بسی کی جنگ ہار کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 

پاکستان آدھے سے بھی زیادہ ڈوب چکا ہے ۔ ٹویٹر، انسٹاگرام، فیس بک ،واٹس ایپ حتٰی کہ سارے کا سارا سوشل میڈیا سیلاب زدگان کی دکھ درد اور آہ بھری تصاویر کو اپلوڈ کرنے میں مصروف ہے۔ کیا ہم اب بھی بیرون ممالک حکام  سے مدد کے انتظار میں ہیں ؟

کیا ہمارے حکام ۷۴ سالوں میں کوئی اثاثہ محفوظ نہ کرسکے؟ 

سوات ، بلوچستان، سندھ سب ڈوب گئے ۔وسیب پرسان حال ہے۔ راجن پور، فاضل پور تونسہ کو سیلاب آڑھے ہاتھوں لے چکا۔ کہیں لاشیں درختوں سے اٹکی دکھائی دے رہی ہیں تو کہیں ملبے تلے دبی ہوئی ۔۔۔۔

دماغ یہ سوچ سوچ کر بے بس ہوا جا رہا  ہے کہ کس طرح اس،صورتحال سے بچا جائے۔

پاکستان میں سیاسی افراتفری کے باعث حکمران آفت ذدہ لوگوں کی مدد کرنےپر بھی توجہ نہیں دے رہے ۔ وہ لوگ جنہیں صرف زندہ رہنے کےلیے لباس ، خوراک اور چھت کا سہاراچاہیے آج وہ مشکل کی اس کڑی گھڑی میں تن تنہا ہیں ۔ وہ ملکی سیاست کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ مرنا تو سبھی نے ہے۔  یہ دنیا جاگیرِ دوام نہیں مگر خدایا ایسی موت سے محفوظ رکھ جس میں اپنوں کے ہاتھوں غسل تک نصیب نہ ہو ، جس میں دو گز زمین کا ٹکڑا اور کفن جیسا لباس نصیب نہ ہو،جس میں چار کاندھوں پر اٹھا کر گھر والے اور عزیز دفنانے کے لیے قبرستان تک نہ لے جاسکیں۔  آج سیلاب کے باعث زمین خشکی کو ترس رہی ہے انسان تو منہ میں زبان رکھتا ہے وہ تو بول کر اپنے دکھ کا اظہار بھی بھر پور کر سکتا ہے ۔ مگر ان بے زبانوں کا کیا جو اپنے دکھ کا اشتہار تک نہیں لگا سکتے۔ 

؂  زندگی دیکھ تیرے دیدۂ تمسخر کی قسم

ہم تجھے چھوڑنے والے ہیں تماشہ نہ بنا

میرے پاس اس کُرب کو بیان کرنے کےلیے الفاظ کا اتنا ذخیرہ موجود نہیں ۔ یہ دکھ اتنی طوالت اختیار کر گیا ہے کہ الفاظ اس کو بیان کرنے کے لیے سہارہ دینے کو بھی قاصر ہیں  ۔جب معمولی بارش ہوتی ہے تو ہم گھروں سے بے جا نکلنے سے بھی گریز کرتے ہیں کہ کہیں کیچڑ کپڑے گندے نہ کر دے ۔ مگر آج ان لوگوں کا کیا جو سر تا پا کیچڑ آلود ہیں۔۔۔۔؟

حالات اس قدر قابلِ رحم ہیں کہ اب تو انسانیت معجزۂ خداوندی کے انتظار میں ہے ۔ سیلاب کی ذد میں آنے والا ہر فرد،ہر خاندان غائبانہ مدد کا متلاشی ہے۔


اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ ، وَلَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ ۔

“اے اللہ تو اپنے غضب سے ہمیں نہ مار، اپنے عذاب کے ذریعہ ہمیں ہلاک نہ کر اور ایسے برے وقت کے آنے سے پہلے ہمیں بخش دے۔"

اس قوم کو آج سبھی اختلافات ختم  کر کے یکجا ہونے کی ضرورت ہے ۔ رنجشیں ختم کر کے ایک قوم ہونے کا وقت ہے۔ میری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ جتنا ہو سکے آفت ذدہ بھائیوں کی مدد کے لیے تعاون کریں۔ اے کشتئی نوح( علیہ السلام ) کو امنڈتے طوفانوں سے بچانے والے رب ہمارے احوال درست فرما ۔ ہم پر اپنا خاص کرم کر اور ہمارے لیے مدد، رحم اور وسائل کے دریچے کھول دے ۔

آمین

Post a Comment

15 Comments

Alimuhib said…
اقبال تیرے دیس کا حال کیا سناوں
مکاری و عیاری غداری و ہیجان💔
Alimuhib said…
اس کالم میں ان مجبور لوگوں کی ترجمانی بہت درد بھرے اندازمیں کی ہے شاید یے درد ہمارے حکمران بھی سمجھ سکیں😢
لمحۂ فکریہ😕
آمین۔۔۔۔۔🤲🏻
Usman said…
Hmmm bhttt nice words hen bht har koi nahi sumjta ye bat yaha sab apny apny mufad ko lagy hen
جی ایسا ہی ہے مگر بعض اوقات لکھے ہوئے الفاظ روح پر جلدہی اثر انداز ہوتے ہیں۔
Technologist said…
اس تحریر کا ہر لفظ ہمیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لیے پکار رہا ہے۔ ہمارے جنوبی پنجاب کے لوگوں کے حال کو اس قدر درد کے ساتھ بیان کیا ہے کہ دل چاہ رہا ہے اسی وقت سب چھوڑ کر ان لوگوں کے پاس چلی جاؤں ۔ اے اللہ تو پاکستان کے لوگوں کی مدد فرما۔ آ مین !
ثمہ آمین ۔🤲🏻
Anonymous said…
Bht pyara likha Allah mulk Pakistan my apna khas Karam farmaye
Hifsa Almas said…
تحریر پڑھنے کے لیے شکریہ۔
Hifsa Almas said…
تحریر پڑھنے کے لیے شکریہ۔
Hifsa Almas said…
تحریر پڑھنے کے لیے شکریہ۔
Hifsa Almas said…
تحریر پڑھنے کے لیے شکریہ۔
Hifsa Almas said…
تحریر پڑھنے کے لیے شکریہ۔