Hifsaalmas

Hazrat Zarar (Razi Allah Anhu) Kay Jahadi Karnamy by Usman yaseen

 حضرت ضرار رضی اللہ عنہ کے جہادی کارنامے

از قلم : عثمان یاسین ۔۔۔ وہاڑی


Unplash 


اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو کیسی کیسی عظیم ہستیاں عطاء فرمائی ہیں کہ جن کے ذکر سے قلم و قرطاس معطر ہو جاتے ہیں ۔ انہی منفرد خصوصیات کی حامل شخصیت ، نیر تاباں، خیبر کے ایک بڑے قبیلے بنو اسد سے تعلق رکھنے والے، خوبصورت، بہادر، کڑیل جوان، جن کی شمشیر زنی، نیزہ بازی، گھڑ سواری اور تیر اندازی کی مہارت میں کوئی دوسرا ثانی نہ تھا۔ رومیوں کے لشکر میں خوف و دہشت کا طوفان اٹھانے والے ، اللہ کے علاوہ ہر ایک سے بے خوف مجاہد، سرفروش اور جانباز جرنیل جب لوہے کی زرہوں میں جکڑے رومی فوجی اس اللہ کے شیر کو دیکھتے تو حضرت ضرار نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اپنی قمیص بھی اتار دیتے اور اسکی یہ شجاعت و بہادری دیکھ کر رومی ان سے اس قدر خوفزدہ ہوتے کہ " جن آ گیا " "جن آ گیا" کی گردان شروع کر دیتے اور انکی زد سے دور بھاگنے کی کوشش میں لگے رہتے ۔ 

          میدان کارزار میں گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر مسلسل تابڑ توڑ حملے کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ اپنی بےمثال بہادری اور لاجواب بہادری و شجاعت کی بدولت، ایک ہزار دشمن افراد پر بھاری جنگجو مجاہد، جن کا نام سن کر دشمن محاورة نہیں حقیقتاً تھر تھر کانپنے لگتے، اپنی بےمثال و بےپناہ بہادری اور مجاہدانہ کارروائیوں کی بناء پر تاریخ اسلام کے اوراق میں قیامت تک ان کا نام زندہ و تابندہ رہے گا ۔ اللہ جل شانہ کے یہ شیر اور آقا صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے یہ محب " ضرار بن الازور الاسدی" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 

نام و نسب: 

           نام : ضرار، کنیت: ابو ازور 

         نسب نامہ : ضرار بن مالک ( ازور ) بن اوس بن خزیمہ بن ربیعہ بن مالک بن ثعلبہ بن دوران بن اسد بن خزیمہ اسدی ۔ 

قبول اسلام: 

          حضرت ضرار رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے ( بنو اسد ) کے اصحابِ ثروت میں سے تھے ۔ عرب میں سب سے بڑی دولت اونٹ کے گلے سمجھے جاتے ہیں۔ حضرت ضرار رضی اللہ عنہ کے پاس ہزار اونٹوں کا گلہ تھا ۔ اسلام قبول کرنے کے جذبہ و ولولے میں تمام مال و دولت مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کروا دیا اور خالی ہاتھ آستان نبوی پر پہنچے اور عرض کی.  

           تركت الحمور و ضرب القداح

            واللهو تعلله انتها لا 

             قيارب لا تيقنن صفقتي 

            فقد لعب اهلي و مالي مرالا

حوالہ : (اسد الغابہ۔۔ جلد ۔۔ 3 ۔۔ ص ۔۔ 39)

                  حضرت ضرار رضی اللہ عنہ جب بنو اسد قبیلے کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے، خیر الورٰی، نور الھدی ، حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اسلام قبول کرنے کیلئے حاضر ہوئے تو انہوں نے پہلا کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ ایک ہزار اونٹ ان کے چرواہوں سمیت مسلمانوں کے بیت المال کیلئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیئے۔ 

        رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے قریبی وقت میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نبوت کے ایک جھوٹے دعویدار طلیحہ الاسدی کے خلاف جہاد کیلئے بھیجا اور اس مہم کا سالار ( کمانڈر ) مقرر فرمایا، طلیحہ اور اس کے ساتھی اللہ کے اس شیر کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور اپنا بےشمار جانی نقصان کروانے کے بعد راہ فرار اختیار کر گئے۔ حضرت ضرار نے اللہ اور اسکے محبوب کے دشمن ، زکوٰۃ کے منکر مالک بن نویرہ کو واصل جہنم کیا ۔ 

             خلیفہ بلا فصل سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ جب مرتدین کا قلع قمع کر کے فارغ ہوئے، جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، طلیحہ بن خویلد اور ان کے پیروکاروں کو عبرتناک شکست سے دو چار کرنے کے بعد قیصر و کسریٰ یعنی ایران اور روم کو فتح کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ( چونکہ یہ دونوں اسلام کے خلاف مضبوط قلعے تھے ) سیدنا صدیقِ اکبر نے ایمان سے لبریز جرآت و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لشکرِ اسلام کو حکم دیا کہ قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ !! 

                    امیر المومنین کی طرف سے اعلان جہاد سن کر بنو اسد کا یہ عظیم شیر، جانثار اسلام اپنے ساز و سامان کو تیار کرنے لگا ۔ انکی تیاری کو دیکھ کر انکی لاڈلی بہن خولہ بنت ازور رضی اللہ عنہا بھی ساتھ چلنے کو تیار ہوگئیں ۔ 

              سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے حکم سے اسلامی لشکر اپنی مہم پر روانہ ہوا اور شام کے مرکزی شہر دمشق کا جا محاصرہ کیا ۔ ابھی یہ محاصرہ جاری تھا کہ تاریخ اسلام کے عظیم جرنیل، اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو پتا چلا کہ شاہ روم ہرقل ایک بڑا لشکر لیکر فلسطین کے مشہور مقام اجنادین میں پہنچ کر خیمہ زن ہو چکا ہے اور اسکی کوشش یہ ہے کہ لشکرِ اسلام پر حملہ آور ہو کر ان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جائے ۔ 

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس نازک صورتحال کو دیکھ کر فوراً لشکر اسلام کے تجربہ کار ، فدا کار اور جانثار ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اس نازک ترین صورتحال سے کس طرح مقابلہ کیا جائے ۔ انہوں نے مشورہ دیا ۔ اے امیر لشکر! دمشق کے محاصرے کو ترک کر کے شاہ روم ہرقل کی فوج کا مقابلہ کیا جائے ۔ تجربہ کار ساتھیوں کے مشوروں کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکرِ اسلام کو فلسطین کے سرحدی مقام اجنادین کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا ۔ جہاں رومی لشکر ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے۔ جب لشکرِ اسلامی دمشق کا محاصرہ ترک کر کے اجنادین کی جانب روانہ ہوا تو دشمن نے موقع غنیمت جانتے ہوئے بزدلوں کی طرح اچانک پیچھے سے حملہ کر دیا ۔ یہ حملہ اس قدر اچانک سے ہوا کہ لشکرِ اسلام کو اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا ، دشمن بگولے کی طرح آئے اور لشکرِ اسلام کے پیچھے محو سفر خواتین کو گرفتار کیا اور آنا فانا پیچھے ہٹ گئے۔ گرفتار ہونے والی خواتین میں حضرت ضرار رضی اللہ عنہ کی بہن خولہ بنت ازور رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ انہوں نے اپنے ساتھ گرفتار ہونے والی خواتین کو منظم کیا اور خیموں کی چوبیں پکڑ کر دشمن پر حملہ کر دیا اور پہرہ دینے والوں کے سر پھوڑ دیئیے، (خواتین نے جس انداز میں اپنا دفاع کیا یہ کارنامہ بھی تاریخ اسلام کے ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے)۔ 

iStockphoto 


                   ادھر مجاھدین فلسطین کے سرحدی مقام اجنادین پر پہنچ چکے تھے ۔ یہاں شاہ روم ہرقل نے ایک لاکھ مسلح رومی فوج بھیجی اور خود حمص میں قیام کیا۔اللہ کے مجاہدوں نے روم کے ابلیسی لشکر کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ حضرت ضرار رضی اللہ عنہ نے اس مقابلے میں بھی اپنی بےمثال بہادری کے مطابق ایسی جنگ کی کہ کوئی بڑے سے بڑا جری بہادروں ان کے سامنے ٹھہر نہ سکا ۔ دوران جنگ رومی جرنیل" دوان " کو ضرار رضی اللہ عنہ نے واصل جہنم کر دیا ۔ اس تاریخی معرکے میں ضرار رضی اللہ عنہ نے دشمنوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ دشمن سب کچھ بھول کر انہی کے گرد ہو گئے ۔۔۔ دشمنان اسلام سے مقابلے کرتے کرتے دونوں پنڈلیاں کٹ گئیں لیکن رکے پھر بھی نہیں اور اپنے گٹھنوں کے بل کھڑے ہو کر اللہ کے دشمنوں پر اللہ کا عذاب بنے رہے اور وہ سب کے سب مل کر بھی اس مجاہد پر اس حال میں بھی قابو نہ پا سکے ۔ اللہ کی راہ میں اپنی جان پیش کرنے کے شوقین، اللہ اور اسکے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے سامنے ایک لمحے کیلئے بھی نہ جھکنے والے اللہ کے شیر ، اسی طرح اپنے گٹھنوں کے بل اللہ کی راہ میں لڑتے رہے ۔ یہاں تک کہ گھوڑے کے پیروں تلے روندے گئے ، لیکن معرکہ رکنے تک میدان جہاد سے نہ نکلے ۔ اور آخر کار اللہ جل شانہ نے مسلمانوں کو فتح کا تاج پہنایا اور دشمنوں کو ذلت کا طوق۔ ادھر حضرت ضرار رضی اللہ عنہ بہت زیادہ زخمی ہو چکے تھے۔ جب ہر طرف سے معرکہ تھم چکا تو امیر لشکرِ ( حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ) کے پاس پہنچائے گئے، اور بلآخر اللہ کا یہ عظیم شیر ، زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے جام شہادت نوش فرماگئے ۔ ( انا للّٰہ وانا الیہ راجعون) 

              حضرت ضرار رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد ہر معرکے میں جوانمردی، جانفشانی، جانبازی، شمشیر زنی اور نیزہ بازی کے ایسے حیرت انگیز کارنامے سر انجام دیئے جو قیامت تک تاریخ اسلام کے اوراق میں جگمگاتے رہیں گے اور جن سے ہر دور میں اسلام کے مجاہد ایمانی حرارت حاصل کرتے ہوئے ، میدان جہاد میں قابلِ قدر خدمات سر انجام دیتے تھے، دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے ان شاءاللہ 

    اللہ تعالیٰ سے استدعا ہے کہ اللہ جل شانہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلائے اور ان کی زندگی ہمارے لیئے مشعلِ راہ بنائے آمین وایاک

https://hifsaalmas.blogspot.com/ پرمزید آپ پڑھ سکتے ہیں ۔ تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پہ کلک کیجیے۔


Post a Comment

0 Comments