انجامِ سحر(حقیقت پر مبنی داستان)
آمن شہزادی(گجرات)
![]() |
pixabay |
گھر کی بالکونی میں کھڑی ہاتھوں میں کافی کا مگ تھامے بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی، سر پر سلیقے سے ڈوپٹہ اوڑھے کندھوں پر شال لیے وہ بہت باوقار لگ رہی تھی ۔ جھکی ہوئی گھنی پلکیں کسی گہری سوچ بچار کا منہ بولتا ثبوت تھیں جیسے افکار اور پریشانیوں کے درمیان جنگ لڑ رہی ہوں۔ جیسے حق و باطل کی جنگ لڑ رہی ہوں۔ سوچوں اور افکار کا سمندر اس کے دل و دماغ میں موج زن تھا۔چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔ جیسے کسی اپنے کے ہاتھوں روح بُری طرح چھلنی ہوٸی ہو۔یہ اپنے رشتہ دار کتنے! بے رحم ہوتے ہیں۔ خود غرض ہوتے ہیں۔اپنے نفس کی تسکین کے لیے شیطان کے قدموں پر چلنے والے کتنی بے دردی سے دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں۔ درد وہی دیتے ہیں جن پر اعتبار کیا جائے ۔ ٹھوکر ہمیشہ وہیں سے لگتی ہے جس رشتے پر مان ہو۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے ثوبیہ کو سوچ کے جھانسے سے باہر نکالا۔سردیوں کی بھیگی بھیگی اداس شام بھی اس کے غم میں برابر کی شریک ہو رہی تھی۔ درختوں کے پتے جھولتے ہوئے گویا اس اداس سی لڑکی کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہوں جیسے وہ اس کی تکلیف میں اس کے ساتھ ہیں۔ دل اتنی تیزی سے دھڑکا ثوبیہ کو لگا جیسے وہ سانس لینا بھول جائے گی۔اس سے پہلے کہ وہ پریشانی میں اپنے ہواس کھو بیٹھتی اچانک سے فون بجنا شروع ہو گیا۔ وہ ایک دم سے چونکی اور موباٸل اٹھا کر دیکھا جہاں لکھا آ رہا تھا سمیراز کالنگ ۔ وہ زخمی ہونٹوں سے مسکرائی اور فون اٹھا کے کانوں سے لگایا جو خوشی اور تسلی کے دو بول سننے کو ترس گٸے تھے۔ جیسے وہ برسوں سے زہر اگلتی اور سلگتی ہوئی آوازوں کو کانوں انڈھیلتی رہی ہو۔
(ثوبیہ)اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ،
کیسی ہو؟۔
(سمیرا)وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ،چہکتی ہوٸی خوشگوار آواز، نرم و شیریں لہجہ بہت سوں کو متاثر کرتا تھا۔
الحَمْدُ ِلله علی کل حال میں بالکل ٹھیک ہو!
تم سناٶ !کیسی ہو؟
(ثوبیہ)میں بھی ٹھیک ہوں ،الحَمْدُ ِلله
(سمیرا) لیکن تمھاری آواز اور تمھارے لہجے سے لگ تو نہیں رہا کہ تم ٹھیک ہو۔ کس بات پر پریشان ہو؟
کیا ہوا ہے بتاؤ مجھے؟ سمیرا کو فکر لاحق ہوئی ۔
(ثوبیہ)کچھ نہیں سمیرا! بس جب ہمارے اپنے ہمیں برباد کرنے پر تُلے ہوں تو پھر انسان کیسے پرسکون ہو سکتا ہے؟ (بے شک آباد کرنے والا اللہ ہے)مگر رشتہ دار ناک میں دم کر کے رکھ دیں تو پھر جینا تھوڑا مشکل لگتا ہے۔ ایک پل کا سفر صدیوں کی مسافت لگنے لگتا ہے۔
(سمیرا)ہممم! یہ تو ہے لیکن اللہ کی ذات سے ناامید نہیں ہونا چاہیے ۔
ہاں سمیرا تم ٹھیک کہہ رہی ہوں لیکن مجھے ان دکھوں کی فکر نہیں جو انھوں نے ہمیں دیں۔مجھے بس ان کی آخرت کی فکر ہے۔
دیکھو ناں ایک بندہ اللہ تعالی کے بتائے ہوئے فراٸض کو پورا کرتا ہے، نماز ، روزہ ، زکوٰة و حج مگر رشتوں داروں سے نیک سلوک بھول جاتا ہے۔ رشتہ داروں ہمسایوں سے حسنِ سلوک بھی ہم پر فرض ہے ۔لیکن نجانے کیوں ہم اس دنیا کی دلدل میں پھنس کر ارکانِ اسلام کے علاوہ ہر فرض بھول جاتے ہیں۔
کیا ہوا ہے ثوبیہ ؟ صاف صاف کہو کیا کہنا چاہ رہی ہو۔
سمیرا تمھیں پتہ ہے ناں کہ ہماری سلمیٰ پھپھو جادو ٹونے کرتی ہیں۔ دوسروں کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن ہمارے گھر میں فساد ڈالتی ہیں۔ اپنے بھاٸی کو ایسے مٹھی میں قید کر کے رکھا ہے انھیں اپنے بیوی بچوں کے ایسا خلاف کیا ہے کہ انھیں ساری دنیا میں صرف اپنی بہن سچی لگتی ہے باقی سب جھوٹے ہیں ، فریبی ہیں، خود غرض ہیں۔ثوبیہ نے افسردگی سے کہا۔
کیا بہنیں ایسی ہوتی ہیں ؟خود غرض جو اپنے بھائیوں کو اپنے ساتھ اس لیے ملا لیتی ہیں کہ وہ بھائیوں کی کماٸی کھا سکیں اور بھائی اپنے بیوی بچوں کو خرچہ نہ دے۔ ان سے پیار سے مل جل کر نہ رہے۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی انھوں نے تو اپنے بیٹے کی بھی ایسی ہی تربیت کی ہے۔ اپنے بیٹے کو بھی وہی سب کچھ سکھایا ہے جو وہ خود کرتی ہیں۔
ثوبیہ تم پڑھی لکھی ہو کر بھی بلیک میجک پر یقین رکھتی ہو؟ ہاں!سمیرا یہ حقیقی بات ہے اس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔لوگ آج بھی بلیک میجک کے ذریعے میاں بیوی کا رشتہ خراب کرتے ہیں ۔اس کا ذکر تو قرآن میں سورہ البقرہ میں بھی ہے کہ
"اور انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جو شیطان (سلیمان کی بادشاہت کے وقت پڑھتے تھے، اور سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیطانوں نے ہی کفر کیا لوگوں کو جادو سکھاتے تھے، اور اس (چیز) کی بھی جو شہر بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا اور وہ کسی کو نہ سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، تو کافر نہ بن، پس ان سے وہ بات سیکھتے تھے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈالیں، حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے اور سیکھتے تھے وہ جو ان کو نقصان دیتی تھی اور نہ کہ نفع اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جس نے جادو کو خریدا اس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور وہ چیز بہت بری ہے جس کے بدلہ میں انھوں نے اپنے آپ کو بیچا، کاش وہ جانتے۔"
سمیرا نے ٹھنڈی آہ بھری اور گویا ہوئی اللہ سے دعا ہے کہ وہ انھیں ہدایت دیں ۔آمین
(ثوبیہ)آمین،
کچھ عرصہ بعد شام کا وقت تھا سلمیٰ بیگم چارپائی پر بیٹھ کر تسبیح کے دانے گرا رہی تھی۔کچھ وظاٸف پڑھ رہی تھیں۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور دروازہ بجانے والے نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ ہاٸے کمبخت کون آ گیا اس وقت، سلمی بیگم نے عینک کو اوپر کرتے قدم قدم چلتے دروازے تک آئیں۔ ارے بھٸی آ رہی ہوں صبر کرو۔
کنڈی کھلتے ہی ہادیہ ماں سے لپٹتے ہوئے زار و قطار رونا شروع ہو گئی ۔سلمی بیگم اس اچانک افتاد کے لیے تیار نہ تھیں۔کیا ہوا میری بچی! چل اندر چل کے بات کرتے ہیں ۔
چارپاٸی پر بیٹھ گٸیں اور کام والی کو آواز لگائی کموں او کموں کہاں مر گئی کم بخت۔
جی بیگم صاحبہ!
کہاں تھی کب سے آوازیں لگا رہی تھی۔
بیگم صاحبہ وہ! بات ابھی کموں کے منہ میں تھی سلمیٰ بیگم نے جھڑپ دیا اور فوراً پانی لانے کو کہا۔
ہادیہ کو پانی پلایا اس کی قمر کو سہلایا اور پوچھا کیا ہوا میری بچی کچھ تو بتا مجھے۔کیوں پریشان ہو رہی ہو؟
ہادیہ جو آنسو بہا رہی تھی۔ماں کے گلے لگ کے پھوٹ پڑی ۔
امی نوید کی بہنوں نے اسے اپنے قابو میں کر لیا ہے ۔ وہ میری ایک نہیں سنتے ۔اکثر ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔ ان کی بہنیں جھوٹ بھی بولیں تو نوید آنکھیں بند کر کے بھروسہ کر لیتے ہیں۔ ہمیں خرچہ بھی نہیں دیتے۔ کبھی ڈھنگ سے بات نہیں کرتے۔نوید کی ساری جمع پونجی ان کی بہنوں کے کھاتے میں جاتی ہے۔
سلمیٰ بیگم کے دل میں ایک سایہ لہرایا اور وہ منظر آنکھوں کو دھنلا گیا۔ مجھے معاف کر دے میری بچی۔ امی آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں ؟ میری بیٹی یہ سب تمھاری ماں کی وجہ سے ہوا ہے۔ کاش ہائے کاش میں نے اپنے بھاٸی کا گھر خراب نہ کیا ہوتا ۔کسی ماں کی بیٹی سے اس کے شوہر کو نہ چھینا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ سلمیٰ بیگم ہاتھ باندھے بے بسی سے اپنی بیٹی کو دوہائیاں دے رہی تھی معافی مانگ رہی تھی۔
امی! ہادیہ بلکتے ہوئے ماں کے پہلوں میں چھپ گٸی ۔امی مجھے افسوس ہو رہا ہے کاش ہم نے مامی کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوتا تو آج ہماری زندگیوں میں یوں طوفان برپا نہ ہوتے ۔ہمیں ماموں کو سب کچھ بتا دینا چاہیے اور مامی سے معافی مانگ لینی چاہیے شاید ہی میرا گھر بچ جائے ورنہ نوید مجھے چھوڑ دیں گے۔
ہاں ضرور ہم آج ہی جاٸیں گے اور ان سے معافی مانگیں گے ان شاء اللہ،
اے پروردگار !مجھ گہن گار کو معاف کر دے ۔خود غرض ہو گئی تھی میں کہ حرام کام کر کے دوسروں کی زندگیوں کو اپنی انا کی بھینت چڑھا کر میں کیسے سکون پا سکتی ہوں ؟ مالک مجھے معاف کر دے۔
https://hifsaalmas.blogspot.com/ پرمزید آپ پڑھ سکتے ہیں ۔ تحریر پڑھنے کے لیے لنک پہ کلک کیجیے۔
4 Comments
Acha likhna h aap ne ma SHAH ALLAH