مبصرہ:آرسی رٶف
کتاب کا نام: عطش
شاعرہ: ماہم حیا صفدر
ماہم حیا صفدر نو عمر ابھرتی ہویٔ شاعرہ کسی تعارف کی محتاج نہیں رہیں۔انکی کتاب عطش اسی برس کے آغاز میں چھپ کر ہماری شیلفوں کی زینت بن چکی ہے۔جب سے کتاب میرے ہاتھ آیٔ ہے اس پر تبصرہ کرنے کی خواہاں تھی،کچھ ناگزیر وجوہات آڑے آتی رہیں۔
ایک سو چوالیس صفحات پر مبنی کتاب،”عطش“، کے سر ورق پر نظر پڑتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے کسی لق و دق صحرا میں محو سفر ہو گیٔ ہوں،سورج سوا نیزے پر موجود ہے،حلق میں شدت پیاس سے کانٹے سے اگ آئےہیں اور میں ایک جراعہ پانی کے لئے پا پیادہ چل پڑی ہوں۔
شاعرہ کے نام اور اس کی تخلیقات سے متعلق مبصرین کے تبصرے پڑھے تو یہ نو عمر شاعرہ قد کاٹھ میں اور بھی طویل القامت ہوتی چلی گیٔ،اپنی وسعت نظر کی اسیر کرنے لگی۔سو خود کو بھی شاعرہ کے ساتھ ساتھ تشنگی و تڑپ ،جس میں وارفتگی اور والہانہ پن کی کویٔ کمی نہیں تھی،محو سفر پایا۔آغاز سفر میں تشنہ لبی کی تشفی کے لۓ حمدیہ کلام کی پھوار روح پر بوند بوند گرنے لگی،لیکن تشنگی کچھ اور بڑھی،،تڑپ سوا ہویٔ اور نعتیہ کلام کی طرف بھی دل ہمکنے لگا۔حمدیہ کلام کے ہر شعر کا پہلا مصرعہ جہاں خدا کی ربوبیت کو تسلیم کر کے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور کرتا رہا،وہیں ہر دوسرا مصرعہ اس سے جڑے اٹوٹ تعلق کو مضبوط تر بناتا رہا۔
تجھ سے ہی آس ہے کہ بچاۓگا اس کو تو
مشکل میں پھنس گیا ہے جو اک بے نوا تیرا
چار خوبصورت نعتوں میں شاعرہ عجزو انکساری کے ساتھ دل ونظر فرش راہ کۓ،اپنےآپ پر تخیل کی ندرت میں ،لفظوں کی فراوانی کو،اپنی نعت گویٔ کافیضان قرار دیتی یے۔وہ دل کو دل نہیں ،ٹھکانہ محمدﷺ قرار دیتی یے۔شہداے کرب و بلا کو لفط لفظ سلام پیش کرتی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی منقبت بیان کرتی ہے تو ان کے رعب و دبدبے،حیا،عدل،وسیع القلبی اور وسعت نظر کا وہ نقشہ کھینچتی ہے کہ روح شانت کردے۔
کرتے تھے وہ پکڑ سب امراۓ بد کی بھی
دیکھا کسی نے ایسا کویٔ منصفین میں
حصہ غزل میں اڑتالیس غزلیں شامل ہیں۔انکی شاعری میں کلاسیکیت اور ندرت کا ایک حسین امتزاج موجود ہے۔غزل کا ہر شعر ہی ایک نیا موضوع لیے ہوئےۓ،کبھی زمینی حقاٸق کے پرَت کھولتا،اور کبھی آسمانی وسعتوں کو بیان کرتا ہوا،کبھی خوابوں کو تکیے تَلے رکھے،کبھی اندھیرے چوم کر طاقوں میں رکھ لئے،اور پھر میر اور جون کے اشعار کی رسیا دکھایٔ دی۔ بہ یک وقت بے باک،نڈر اور وفا شعارانہ نسایٔ عنصر لئے ہوئے مثلاً
دست صنم کو زحمت دستک تلک نہ ہو
ہم نے تو حیا رکھ دیا ہے در اتار کر
اس بے باکی اور برملا پن کے باوجود اشعار میں نفاست اور اور پاکیزگی کا پہلو نمایاں ہے،ملاحظہ ہو
تو میرا دوست ہے یہ بھول گیا کیونکر تو؟
زیب دیتا ہے تجھے مجھ سے گریزاں ہونا؟
یا پھر
اے مسیحاؤ تردد نہ کرو کویٔ بھی
اب تو خوش فہمی سے بیمار نکل آیا ہے
استعارات میں معاشرتی بگاڑ اور بد عنوانیوں کا تزکرہ سہل الفاظ میں یوں کر دیا کہ بات سماعتوں سے اترے اور بازگشت دور تک دماغ کی شریانوں میں سنایٔ دے۔بطور نمونہ
دربار شاہی میں کہاں جاٸیں گی عرضیاں
ممکن ہے تبھی جب سپاہی اجازت دے ، یا
ہم کاغزات لاۓ تھے سبھی دستخط شدہ
قانون سارے وہ زبانی بدل گیا ،
ہم ہی شاید خطا کے پتلے ہوں
آپ سے کب ذہول ہوتے ہیں
تصور محبوب کسی ہم پلہ و ہم قامت شخص کا ہے۔دو بہ دو محبوب کی توصیف ہو یا تنقید،جھجھک موجود نہیں،کیا خوب کہا
دو ہی منظر ہیں جہاں بھر میں نظارے لاٸق
ترا ہنسنا یا میری زلف کا پیچاں ہونا
حصہ نظم میں سینتیس نظمیں شامل ہیں۔جن میں آذاد،معریٰ اور نثری نظمیں شامل ہیں۔محبوب کا ملنے نہ آنا۔۔۔۔۔۔۔۔ موسم کی سازش ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر
،تم جب ملنے آتے ہو
ڈھیر اداسی دے جاتے ہو۔
لیکن آتش پر سوز میں سلگتا بدن ہونے کے باوجود،
امید،باندھ کر
اک کپ چائے
آدھی آدھی پی لیتے ہیں، کی خواہش،حقیقی بشر ہونے کا پورا پورا ثبوت فراہم کرتی ہے۔
نثری نظم کاہر ہر لفظ خیال کے تانوں بانوں کو کسی گُتھی کی طرح سلجھاتا ہوابالآخر اختتام پر پہنچ کرمکمل داستان رقَم کر دیتا ہے۔قاری نگاہ تک اٹھا لینے سے قاصر،کہ لفظ چھوٹ گیا تو خیال کا تانا بانا ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جاۓگا،اور یوں دم لۓ بغیر تکمل کا سفر طے کر لیتا ہے۔ نظم ”طمانچہ“ میں محبت کے سب رنگوں جن میں محبت،سرخرو ہوٸ،اختتام کے قریب پہنچ کر پتہ چلتا ہے ان سب تخیلاتی کہانیوں میں،اصل مرد،حقیقی مردوں سے بہت مختلف ہیں،ہمارے معاشرے کا ایسا سچ ہے جس پر قلم اٹھا کر قلم کا حق ادا کر دیا گیاہے۔
گویا زیر نظر شعری مجموعہ،عطش،ماہم حیا صفدر کی تخیلاتی کاوشوں کا ایسا مجموعہ ہے جس میں زیست کا ہر رنگ ایک خاص تناسب میں بیان کردہ ہے۔ان کا تخیل حیرت کدہ میں پہنچا دیتا ہے تو کبھی فلسفیانہ انداز فکر،سوچ کے کیٔ در وا کرتا ہے۔وہ اپنے قاری کو مایوس کیے بغیر اپنے سنگ رواں دواں رکھے آخری صفحے تک لے آتی ہیں۔ معلوم سے نامعلوم کی طرف جہد مسلسل میں اپنے دل میں موجود ،عطش ، کو آتشِ عشق کی طرح بجھنے نہیں دیتیں کہ یہی عطش تلاش کے سفر میں دور تک ان کی ہم سفر ہے اور دعاؤں میں لپٹی ،اک بد دُعا
تجھ کو بھی خدا اایسے ہی راہ سے گزارے اک دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مری جان سے پہلے
تیرا دل جاۓ
یوں دونوں کا نقصان برابر ہو جاۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو درپردہ بھی دعا ہی ہے،ان کو ساکن و جامد ہونے سے بچاتی ہے۔
0 Comments