عنوان: دنیا کی حیات اور اس کا مال و اسباب
عثمان یاسین
![]() |
pixabay |
دنیا کی حیات اور اس کا مال و اسباب عارضی اور فانی ہے ۔ ہر ذی نفس نے یہاں اپنی مدتِ مقررہ مکمل کرنے کے بعد دارِ بقاء کی طرف کوچ کرنا ہی ہے جو نہ ختم ہونے والا ابدی ٹھکانہ ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا کامل ایمان ہے کہ موت برحق ہے ۔ اس عقیدہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اگر ہم سستی و کاہلی اور غفلت کی زندگی گزاریں تو نہایت تعجب کی بات ہے ۔ یاد رکھیں کہ زندگی کی صورت میں جو ہم زندگی گزار رہے ہیں اس کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے وقت اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے ۔جو آناََ فاناََ گزرتا رہتا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ دن ہفتوں میں ، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں گزر جاتے ہیں
بقول شخصے
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں باقی مذاہب ماننے والوں کی بنسبت بڑھ کر اس کی قدر کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں دنیاوی زندگی ہماری آخرت کے لئے کھیت کی مثل ہے ۔ ہم اس میں جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے ۔ اگر ہم اس فانی زندگی میں وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے بھلائی، خیر اور نیک کاموں کے بیج بونے میں صرف کریں گے تو کل یومِ آخرت ہمیں فلاح و نجات کا صلہ ملے گا اور اگر خدانخواستہ ہم نے وقتِ عزیز کی قدر نہیں جانی اور فرصت کے لمحات کو لا یعنی گفتگو، لغویات، فضولیات اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں گزار دیا تو اس کی سخت باز پرس کی جائے گی ۔ چونکہ عمر انسان کے ایام یکے بعد دیگرے بڑی سبک رفتاری سے گزر جاتے ہیں اور انسان اپنے اعمالِ صالحہ سے تہی دامن آہیں بھرتا رہ جاتا ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسمیں کھائی ہیں ۔ جس سے وقت کی بے پناہ فضیلت و اہمیت اجاگر ہوتی ہے ۔ چنانچہ سورۃ فجر کی آیت نمبر 1- 2 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
ترجمہ : "اس صبح کی قسم جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی اور دس راتوں کی قسم "
سورہ فرقان کی آیت نمبر 62 میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ " اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہر اس شخص کے لئے جو سبق لینا چاہے یا شکر گزار ہونا چاہے "
ایک اور جگہ ارشاد گرامی ہے : "اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور جب ان کا لغو چیزوں سے گزر ہو جائے تو وہ شریفوں کی طرح دامن بچا کر گزر جاتے ہیں " ( الفرقان 72 )
قرآن کی طرح سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وقت کی اہمیت اور اس کی قدر و منزلت پر زور دیا ہے اور روزِ قیامت خدائے لم یزل کے حضور انسان کو وقت کے متعلق جواب دہ قرار دیا ہے ۔ یہاں تک کہ یومِ حساب جو بنیادی سوالات ہر انسان سے پوچھیں جائیں گے ان میں سے دو کا تعلق وقت سے ہے ۔
حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" قیامت کے روز کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ہل نہ پائے گا یہاں تک کہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے لے۔ عمر کہاں گزاری ، جوانی کس کام میں کھپائی، مال کہاں سے کمایا ، کہاں خرچ کیا اور اپنے علم پر کہاں تک خرچ کیا ؟ ( ترمذی ، ج 3 ، ص 64 )
انسان سے اس کے بارے میں عمومی طور پر اور جوانی کے بارے میں خصوصی طور پر سوال کیا جائے گا ۔ اگرچہ جوانی بھی عمر ہی کا حصہ ہے لیکن اس کی ایک نمایاں حیثیت ہے اس لئے کہ یہ عزم و حوصلہ اور کچھ کر گزرنے کی عمر ہوتی ہے ۔
انسان اگر محنت کرے تو بلاشبہ دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیز حاصل کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر اس کے پاس وقت کی قدر نہیں تو ایک سوئی بھی حاصل نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ سعادت مند لوگ وہ ہوتے ہیں جو وقت کو غنیمت جانتے ہوئے رضائے الہٰی کے امور میں لگ جاتے ہیں اور نہ صرف دنیا میں اعلیٰ مرتبہ پاتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی جنت جیسی ابدالآباد کی نعمتوں اور رحمان کی نوازشوں کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ مگر یہی لوگ کب خوف الہٰی سے بے نیاز ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور معصیتوں پر اتر آتے ہیں تو پھر آتشِ جہنم کا ایندھن بن جاتے ہیں ۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے جا بجا وقت کی اہمیت و افادیت کا بخوبی احساس ہوتا ہے ۔ ایسے میں اگر ہم نے خوابِ غفلت سے آنکھیں نہ کھولیں اور وقت ضائع کرتے رہیں تو یقیناً یہ انتہائی خسارے کا سودا ہو گا ۔ بد قسمتی سے آج ہماری نسلِ نو میں وقت کی ناقدری کا جذبہ تو بے رحمی تک جا پہنچا ہے ۔ دیکھنے میں آتا ہے نوجوان نسل اپنا قیمتی وقت فضول گپ شپ، بے ہودہ فلمیں دیکھنے ، لہو و لعب، غیروں کی غیبت ، اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا دل دکھانے اور الزام تراشیوں جیسے قبیح افعال میں گزار دیتے ہیں ۔
ایسے پُر آشوب ملحدانہ اور مفسدانہ دور / ماحول میں ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ وقت کا احساس کرتے ہوئے ہم اپنے ماتحتوں، بچوں ، گھر والوں اور دوست و احباب کو وقت کی اہمیت بتائیں اور یہ بھی کہ وقت کو کیسے اور کہاں خرچ کرنا ہے تاکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت سے صحیح معنوں میں استفادہ حاصل کر سکیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ماہ و سال کی قدر دانی کی توفیق کامل عطا فرمائے
https://hifsaalmas.blogspot.com/ پرمزید آپ پڑھ سکتے ہیں ۔ تحریر پڑھنے کے لیے لنک پہ کلک کیجیے۔
5 Comments
اللھم زرفزد
ذیشان یاسین