عہد حیات
بقلم حفصہ الماس
میری گھڑی اور کتابیں بیگ میں ترتیب سے رکھ دینا تاکہ میں بار بار تم سے نہ پوچھوں۔ تمہیں یاد ہے نا کیسے بچوں کی طرح مجھے چیزیں اٹھا اٹھا کر دینی پڑتی ہیں اور پھر ناشتہ بناکر دینے کے ساتھ ساتھ مجھے چیزیں پکڑاتے ہوئے بھاگ دوڑ میں تم تھک جاتی ہو لیکن میں بھی کیا کروں تم نے میری عادتیں ہی اتنی پختہ کردی ہیں کہ خود سے کچھ کرنا مشکل لگتا ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارا باغیچہ جس میں صبح صبح ہم روز ٹہلتے ہیں مجھ سے زیادہ تو وہ تمہاری سنگت میں رہتا ہوگا نا۔ یہ چھوٹے چھوٹے پھول کرنے خوشنصیب ہوں گے نا جو ہر وقت تمہیں اپنے سامنے چلتے پھرتے دیکھتے ہوں گے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کس کے لئے میں کماتا ہوں، کیوں اپنا وقت دوسرے کاموں میں صرف کرتا ہوں لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملتا۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے گھر بیٹھ جانا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت تمہارے ساتھ بیتا دوں لیکن پھر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ زندگی میں ہل چل ہونی چاہیے۔ تبھی میں پھر تمہیں گھر میں تنہا چھوڑ کر کمانے نکل پڑتا ہوں۔ تم ہی کہتی ہوں نا کہ میرے اندر کا پروفیسری کیڑا مجھے سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا تو اسی لئے میں تمہیں گھر میں اکیلا چھوڑ کر پھر اپنے بچوں کے پاس چل دیتا ہوں، جن کی شرارتیں اور پڑھائی سے بچنے کے بہانے میرے چہرے پہ مسکراہٹ لانے کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن اب کیا ہوگا جب میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکا ہوں۔ بہت دیر ہوگئی ہے میں نے تمہاری کھلکھاہٹ نہیں سنی ۔ کبھی کبھی ہلکی سی مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے اور پھر تم سیرئیس ہوجاتی ہو۔ آج بہت چپ چاپ سی ہو ۔ خیریت تو ہے نا؟ مجھے لگتا ہے تم نے مجھے اگنور کرنا شروع کردیا ہے جو جواب نہیں دیتی ہو۔ نائلہ کچھ تو بولو؟ کہاں ہو نائلہ؟ نائلہ!
![]() |
unplash |
میں محمد سمیر طارق، یونیورسٹی کا پروفیسر جسے والدین نے محبت سے پالا اور کسی چیز کی کمی نا آنے دی۔ میں چونکہ اکلوتا تھا تو میری ہر خواہش کا احترام کیا جاتا رہا اور نائلہ جو کہ میری یونیورسٹی فیلو تھی اس سے میری شادی بھی میری مرضی سے کروائی گئی۔ یقیناً وہ میرے لئے بہت اہم ہے اور میں نے اس کو اپنی زندگی کا اہم جزو مانا ہے۔ ہماری کوئی اولاد نا تھی شاید یہ بھی خدا کی طرف سے ہمارے لئے آزمائش تھی۔ ہر شادی شدہ جوڑے کی طرح ہماری بھی خواہش تھی کہ ہمارے بھی بچے ہوں اور ہم انہیں پیار کریں، ان کے ساتھ کھیلیں، ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہمیں بھی دیکھنا نصیب ہوں لیکن جس حال میں رب رکھے۔ جہاں میرا حوصلہ ٹوٹتا وہیں نائلہ مجھے حوصلہ دیتی اور میری ہمت بندھاتی۔ کبھی کبھی تو میں حیران رہ جاتا کہ میں تو چلو یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے وقت گزاردیتا ہوں تو وہ تنہا کیسے رہتی ہو گی۔ دو لوگوں کا کام ہو ہی کتنا سکتا ہے نا لیکن پھر بھی گھر کو سنوارنے سجانے میں وہ کافی وقت گزاردیتی ہے لیکن جب جب وہ تنہا ہوتی ہوگی کیسے خود کو خود ہی حوصلہ دیتی ہوگی جس نے شادی شدہ زندگی کے تیس سال گزرنے کے بعد میں کبھی شکوہ نا کیا۔
سنا تھا کہ اچھے لوگ دنیا میں بہت کم عرصہ کے لئے آتے ہیں شاید ایسے لوگ خدا کو بڑے عزیز ہوتے ہیں تو خدا جلد ہی ایسے لوگوں کو اپنے پاس بنالیتے ہیں۔ قسمت ظریفی دیکھو کینسر نے تمہاری جان لے لی۔ کاش تم سے پہلے مجھے موت آجاتی لیکن کیا کروں میرے بس میں نہیں ہے کہ خود کشی کرکے موت کو گلے لگاؤں۔ شاید خود کشی کرنے سے مجھے میری کم ہمتی روک دیے ہے یا اک دوجے سے کیا ہوا عہد حیات جو نا مجھے جینے دے رہا ہے نا مرنے۔ میں بھی تمہارے پاس جانے کے لئے بے قرار ہوں اور ہر وقت تمہیں سوچتا رہتا ہوں۔
تم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ
"یاد اسے کیا جاتا ہے جس کو ہم بھول جاتے ہیں اور جو ہر طرف موجود ہوں اسے بھلایا کیسے جاسکتا۔"
تم ہر طرف موجود ہو اور ہر چیز اس کی گواہ ہے کہ تم بھلانے کے قابل نہیں۔
__
"صاحب۔۔۔۔۔۔"
صاحب اٹھیے ناشتہ کرلیجیے ۔
ھممم۔
وہ ہڑبڑا کر بستر سے اٹھے۔
صاحب جی سب کچھ تیار ہے۔ کپڑے استرے ہو گئے ہیں، بلیک واسکٹ بھی نکال دی ہے۔ جوتے بھی تیار ہیں۔ بیگ اور کتابیں بھی نکال کر رکھ دی ہیں۔ آپ جلدی سے تیار ہوجائیے۔
ملازم سب کچھ بتارہا تھا تاکہ صاحب یونیورسٹی کی طرف سے ملنے والی اعزازی الوداعی پارٹی میں شرکت کر سکیں اور سمیر طارق صاحب نے جب آس پاس نظریں دوڑائیں تو نائلہ کو کہیں ناپاکر اداسی سے ٹھنڈی سانس بھری اور نائلہ کو سوچنے لگے جو آج یونیورسٹی میں آخری دن پر ، ان کے لئے ان کے خواب میں بھی خاموش اور اداس تھیں۔
https://hifsaalmas.blogspot.com/ پرمزید آپ پڑھ سکتے ہیں ۔ تحریر پڑھنے کے لیے لنک پہ کلک کیجیے۔
https://hifsaalmas.blogspot.com/2022/10/zindagi-by-tehreem-dildar.html
2 Comments