Hifsaalmas

Band Ghari by Tufail Ahmed Nasir

بندگھڑی

    طفیل احمد ناصر

Unplash


باربار وہی نظم سنتی ہے جس میں اس کی تعریف کی گٸی ہو۔ اور جس شعر میں اس کی آنکھوں کی تعریف کی گٸی ہو اسے مقرر مقرر کہہ کر مجھے ایک عظیم شاعر ہونے کا اعزاز بخشتی ہے اور شرارتاً اس شعر پہ ایک ہنستے ہوۓ Emoji کو اپنی اچھی ڈراٸنگ سے ڈرا کردیتی ہے۔اور پھر میری کلاٸی پہ باندھی گھڑی کے شیشے کو اپنی انگلی کے پوروں سے صاف کرکے دیر تک گھڑی کی سوٸیوں کا تعاقب کرتی رہتی ہے جب میں اس کے چہرے پہ گرتی سیاہ زلفیں ہٹا کے دیکھتا ہوں تو یکدم اپنے آنسو پونچھ کے اور بناوٹی ہنسی سے کہتی ہے کتنی بار کہا ہے جب میرے ساتھ بیٹھے ہوتے ہو تو اس مشین کو کہیں چھپا دیاکرو مجھے اس شورسے بہت خوف آتا ہے۔

دیکھو کتنے دھڑلے سے کہہ رہی ہے کہ میں تم دونوں سے یہ حسین لمحے چھین لوں گی؟ نہیں نہیں اہسا کچھ نہیں یہ تو وہی گھڑی ہے جو میں اس لیے باندھتا ہوں کہ کب یہ اس وقت تک پہنچے جو ہمیں ایک ساتھ لے آتا ہے۔تمہارے جانے کے بعد بس اسی کو دیکھتا رہتا ہوں کہ کب یہ تیز رفتاری سے ہمیں قریب لاۓ گی؟

ہلک میں پھنسے آنسوٶں سے اس کی ہنسی متاثر ہوتی ہے مگر وہ ہنس کے کہتی ہے دفعہ دور ۔۔۔مجھے تو یہ سوکن محسوس ہوتی ہے جو ہم دونوں کو ایک دن میلوں دور لے جاۓ گی۔پھر تمہاری یہ گھٹیا واحیات شاعری کون سنے گا؟؟؟ وہ مسکراتی ہوٸی یہی کہتی جاتی اور ورق پلٹتی جاتی ہے اور اپنے دستخط انگریزی میں کرتی جاتی ہے۔پھر بالوں میں لگا گلاب کا ادھ کھلا پھول اس دن کی آخری غزل میں رکھ دیتی ہے۔ہاتھ جھاڑ کے اور خشک گھاس میری طرف اڑا کہ کہتی ہے دیکھو یہ بھی سرسبزوشاداب تھی ایک دن۔

وہ آسمان کی طرف ایسے گردن اٹھا کے دیکھتی ہے جیسے سارا آسمان اس کے لیے بنایا گیا ہے۔دیکھو اس تتلی کے کپڑے ۔۔۔کیسی بن ٹھن کے آٸی ہے اس پہ ایک شعر ہو جاۓ شاعر صاحب بھلا رہنے دو آپ تو اسے انسکٹ کہتے ہیں۔ یہ پھول تتلی کے لگتے ہیں؟ میں سوال دراز کرتا ہوں وہی پورانا سوال ؟تو پھر وہی پورانا جواب سنو !!ہم دونوں جواب کو ایک ساتھ کہتے ہیں" شاید تتلی شعر سننے آتی ہو"۔ 

وہ پھولوں کو ایسے مس کرتی ہے جیسے ان سے مصاحفہ کر رہی ہو۔ واہ کیا خوشبو ہے؟ محترمہ کیمکل سے پاک ہیں نہ ورنہ ایرومہ اکثر دماغ ماعوف کر دیتے ہیں۔ کیا اس ہوا میں جس میں خوشبو شامل ہے یہ اس طرح آگے تک جاسکتی ہے؟ تم سمجھ رہے ہو نہ میں۔۔ہاں ہاں تمہارا مقصد ہے کہ جو خوشبو کی طلب نہیں رکھتے ان تک بھی پہنچے نہیں ان کو پھولوں تک آنا پڑے گا ورنہ ان تک وہی ہوا پہنچے گی جس میں وہ موجود ہیں اوراسی کی خوشبو آۓ گی۔

ہمارے تبصرے اکثر بے عنوان ہوتے ہیں۔بے ہنگم مگر نہایت مبہم اس کی طبعیت اگرچے سیدھی سی ہے مگر گہری بات کرتی ہے۔ہمیشہ ذومعنی الفاظ اور جملوں کو استعمال کرتی ہے۔ اردگرد کے لوگوں پر دھیمی آواز میں جملے کسنا اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں کی غیبتیں کرنا مگر أَسْتَغْفِرُ اللّٰه کہہ کر یہ بھی کہنا کہ ہم سب لوگ اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ ہماری پسندیدہ جگہ سایہ دار پیڑ جس کے نیچے گھاس ہو یا وہ جگہ جہاں سے ہم لوگوں کو دیکھ کر ان پر جملے کس سکیں اور نکلیں اتار سکیں وہاں بیٹھتے ہیں۔

آج جب میں پچاس ہزار پینشن لے کر اپنے کمرے میں آیا اور نماز کے گھڑی کی طرف دیکھا تو رکی ہوٸی تھی۔ کمرے میں ایک سکوت تھا۔ صرف میرے دل کے دھڑکنے کی آواز تھی اور ایک مدھم سی میری سانس کی آواز جس میں دمے کی وجہ سے ارتعاش پیدا ہو گیا تھا۔ آج ہم کو بچھڑے ستاٸیس سال ہوگۓ تھے۔مجھے آج اس گھڑی کی رکی سوٸی نے اسی جگہ لاکھڑا کیا جہاں یہ جملہ کہا گیا تھا کہ یہ گھڑی ایک دن ہم کو میلوں دور لے جاۓ گی۔اس نے سچ کہا تھا کہ اب ہم واقعی وقت کی مسافت میں میلوں دور آچکے ہیں۔اور واپس نہیں جاسکتے۔اب مجھے کوٸی داد بھی نہیں دیتا کیوں کہ داد دینے والے کی تعریف نہیں ہورہی ہوتی۔ جب شیشے کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے اس جملے پر کہ جب اس نے گھاس میری طرف اچھال کے کہا تھا کہ دیکھو یہ بھی سر سبزو شاداب تھا ایک دن۔ 

اس کے دستخط مجھ آج بھی یاد ہیں۔اس بالوں میں لگا ادھ کھلا پھول میری ڈاٸری کی زینت ہے مگر کملا گیا ہے۔ آج بھی تتلیاں سج سنور کے آتی ہیں مگر شاید اب شعر سننے نہیں آتیں۔ اب بھی خوشبو ہوا میں مل جاتی مگر کہاں تک جاتی ہے نہیں معلوم۔

اب بھی بادلوں کے جھنڈ کچھ لکھتے ہیں مگر ہمارا نام نہیں بنتا۔اب میں کسی کے ساتھ کوٸی تبصرہ نہیں کرتا غیبت کو گناہ سمجھتا ہوں۔

جب کبھی سایہ دار درخت دیکھوں تو جلدی سے منہ چھپاے گزر جاتا ہوں کہ وہاں میں اور تم بیٹھے مجھ پہ جملے کستے نظر آتے ہیں۔اب کسی پہ جملے نہیں کستا نہ کسی کی نکل کرتا ہوں۔ 

جب کبھی سنتا ہوں کہ چار موسم ہوتے ہیں تو حیران ہوتا ہوں کہ اگر چار ہوتے ہیں تو یہ پانچواں کون سا موسم ہے جو گزرتا ہی نہیں ۔۔تمہارے غم کا موسم ۔۔ شاید تم کو اچھا نہ لگے مگر سچ میں اب جھوٹ نہیں بولا جاتا اب میں واقعی عمر کے اس حصے میں تمہیں بہت یاد کرتا ہوں۔ اب واحیات شاعری کوٸی نہیں سنتا۔ بہت سی نظمیں لکھی ہیں آکے سن جاٶ پھر نہیں لکھوں گا۔

      

Post a Comment

0 Comments