رحم
ام ہانی بنت ریاض
میانوالی
![]() |
Unplash |
مہربانی، احسان، امید، محبت سب کے مجموعے کا دوسرا نام رحمانیت ہے
اور کسی بھی ذی روح میں ان تمام خصوصیات کا شامل ہونا ہی ان کو معاشرے میں رہنے کے قابل بناتا ہے
انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دلانے والا اس میں پایا جانے والا 'رحم' ہی دلاتا ہے
کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے جب رحم بنایا تو سو میں سے 99 فیصد اپنے پاس رکھا اور 1 فیصد دنیا والوں کو بطور تحفہ دے دیا گیا،ایک ایسا تحفہ جس کے بغیر دنیا میں زندگی نام کی شے کا وجود تصور تک نہیں کیا جا سکتا،ایک ایسا تحفہ جس کا ساتھ ذی روح کے ساتھ جان اور سانس کی مثال ہے یعنی ایک نہ ہو تو دوسرے کی کوئی اہمیت ہی نہیں
رحم، درحقیقت ایک صفت ہے جو ذریعہ امید اور باعث محبت و سکون ہے۔ اگر یہاں سے یہ صفت ختم ہو جائے تو منٹوں میں ہی دنیا حسین سراب سے بھیانک خواب بن جائے گی اس لیے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں اور زندگیوں میں رحم بہت اہم ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ رحم کس پر کیا جائے؟؟
ہمارے لیے تو ہمارا اپنا وجود ہی سب کچھ ہے اور اہمیت کا حامل ہے تو سب سے پہلے تو ہمیں خود کو ہی رحم کی ضرورت ہے
آج کے اس دور میں ہر دوسرا شخص ہی خود کو اندھیر نگری میں دھکیلتا جا رہا ہے، ہر ایک ہی ڈپریشن، انگزائٹی، مائگرین، سر درد کا مریض ہے۔ناامید، تنہا پسند،سیاہ پسند، قابل رحم، قابل محبت اور وجہ صرف خود سے بے رحمی ہے
جب تک وہ خود کو 'خودی' اور 'خدائی' سے دور کر کے دنیا کے دھوکے میں مگن رکھے گا تب تک وہ قابل رحم حالت میں ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں کر سکتا سوائے اس کی خود کی ذات کے رحم کا عنصر پیدا کر کے ہی زندگی کو جینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے
مخلوقات کی خوش قسمتی کیلئے یہ بات ہی کافی ہے کہ رب کائنات نے اپنی خود کی صفات ہی ان کو بطور تحفہ دے دیں۔اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ناں کہ:
"اور میری رحمت ہر شے پر وسیع ہے" (الاعراف-156)
رحمانیت کا مطلب حقیقت میں پتہ ہے کیا ہے؟ کہ اگلے کی غلطیوں، کوتاہیوں کے باوجود اگلے سے محبت و اخلاق سے پیش آنا ۔۔جیسے اللہ تعالٰی اپنے بندے سے کرتے ہیں کہ نافرمانیاں، حکم عدولی کے باوجود 'رحمان و رحیم' کی صفت دکھاتے ہیں کہ دیکھو یہ ہے رحم اور اس کے ساتھ ہی محبت کی تکمیل ہوتی ہے
اور رحم کا یہ سبق ہر روز ہر پل دوہرایا جاتا ہے کہ سیکھو مجھ سے ، اپناؤ یہ صفت اور رحم دیکھاؤ اپنا اور پھر یہ بھی بتا دیا گیا کہ
"جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا،اللہ اس پر رحم نہیں کرتا"
رحم کا بدلہ رحم ہے اور خود پہ اور خود سے جڑی ہر ذی روح پہ رحم و محبت کا مادہ دکھا کے ہی ہم دین و دنیا دونوں میں " فاتح " کہلا سکتے ہیں
فاتح کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا خود کی اور دوسروں کی ذات کیلئے'رحم' ہے ، اس لیے اگر کسی کو اپنی فتح کا اندازہ لگانا ہے تو وہ دیکھے کہ اس کا برتاؤ سب کے ساتھ کیسا ہے؟؟
اور اگر مباحثہ کرنے والا مؤمن ہو تو اس کے اندر کا رحم ہی اس کو اس کے مؤمن ہونے کا پتہ دے گا کیونکہ آقا کریم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے:
"تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں رحم نا کرو"
اللہ اکبر! یعنی انسانیت اور مؤمن کی سب سی بڑی نشانی ہی یہی ہے
اور اگر ہم اپنے رہنما کی زندگی پر بھی نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ:
"محمدﷺ مومنوں کے ساتھ بہت بڑے مہربان تھے"
1 Comments