Hifsaalmas

Insaniyat ka Qatil by Muhammad Zubair Zair


           عنوان  :  پوری انسانیت کا قاتل

               راقم: محمد زبیر زائر,گگومنڈی 

Unplash 


"کیا..! " وہ بےیقینی کےعالم میں چیخے.خبر ہی کچھ اس طرح کی تھی کہ انھیں  آنکھوں کےآگے اندھیرا چھاتا دکھائ دیا.پاؤں کےنیچےسےزمین سرکتی ہوئ محسوس ہوئ .ان  کےاوسان خطا ہوگئے.آندھی اور طوفان کی رفتار سے بائیک دوڑاتے ہوئے وہ گھرپہنچے.جہاں ان کا بارہ سالہ بیٹا چارپائ پر سسک رہا تھا.انھیں کچھ سمجھ  نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے.

"فوری طور پر وکٹوریہ ہسپتال لےچلتےہیں ." بیگم کی بھرائ ہوئ آواز سنائ دی تو وہ چونک اٹھے.

"لیکن وہاں تو دس پندرہ روز سےپہلےہماری  باری نہیں آئےگی .اور اتنی زیادہ چھٹیاں تومجھےملیں گی نہیں .پھربچےکی تکلیف ..! "

"کوشش تو کریں سرتاج! شائد آپ کو چھٹیاں مل ہی جائیں .ورنہ دوماہ کی تنخواہ ہی ایڈوانس لےلینا."

بیگم کی بات سن کر افضال اجمل صاحب نےموبائل نکالا اور پرنسپل صاحب کو کال ملانےلگے.سلسلہ ملنے پر بولے

"السلام علیکم!سر ,میرے بیٹےکی ٹانگ فریکچر ہوگئ ہےپلیز...دس دن کی چھٹیاں درکار ہیں."

"میں نے آپ کی پوری فیملی کا ٹھیکہ نہیں لےرکھا.خبردار!میں نےمزید ایک جملہ بھی سنا تو نوکری سےچھٹی."

پرنسپل عبداللہ راجپوت صاحب نےسلام کا جواب دیےبغیر دھمکی آمیز جواب دیا.افضال اجمل صاحب کی آنکھیں بےاختیار بھر آئیں.

دراصل افضال اجمل صاحب 15000ماہانہ پر ایک پرائیویٹ کالج کا گارڈ تھا.جہاں صبح چھ بجےسےشام چار بجےتک ڈیوٹی دینا پڑتی تھی.جسےچاروناچار نبھارہاتھا.کیوں کہ بےروزگاری سےتوروکھی سوکھی ہی اچھی تھی.پرنسپل عبداللہ راجپوت صاحب نےبھی اس کی اسی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا.

وہ چپ چاپ بیگم کےپاس پہنچےاور ساراماجرا سنایا.

"پھر ایسا کرتےہیں کہ آپ ہمیں وکٹوریہ ہسپتال  چھوڑ آؤ.اور خود کبھی کبھی آجانا."

افضال اجمل کو بیگم کا مشورہ پسند آیا.بہاول پور کےایک نواحی علاقےکےرہائشی ہونےکےباعث وکٹوریہ کافی دور پڑتا تھا.اور ایسی صورت حال میں اس سےبہترحل کوئ نہ تھا.رات گئےتک وہ دونوں کووکٹوریہ چھوڑ کر واپس آچکےتھے.سولہ روز بعدوکٹوریہ ہسپتال  میں بستر پہ پڑے بیٹے پرنظر پڑی توایک بار پھر افضال اجمل  کےاوسان  خطا ہوگئے.پاؤں کےنیچےسےزمین سرکتی محسوس ہوئ.وہ بالکل اسی طرح نڈھال ہو گئےجس طرح بیٹے کےفریکچر کی خبر سن کر ہوئے تھے.بیٹے اور بیگم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے.اور بیٹے کی فریکچر ہوئ ٹانگ کی پنڈلی میں "سریا "کی شکل کا ایک راڈ  نظر آرہا تھا.جو پاؤں کےدونوں طرف باہر نکلا ہوا تھا.جیسےکسی نےتیر کھینچ مارا ہواور وہ  آدھا پار گزر گیا ہو. جب کہ فریکچر ران کی ہڈی ہوئ تھی.انھوں نےآنکھوں ہی آنکھوں میں بیگم سےسوال کیا.وہ پھٹ پڑی"ڈاکٹروں کا کہنا ہےکہ ہڈی ٹوٹنے کےبعد ,ہڈی کےاوپر ہڈی چڑھ چکی ہے.اب اس راڈ کےساتھ رسی کی مدد سے اینٹ لٹکائ جائے جب تک کہ ہڈی سامنےوالی ہڈی کےبرابر نہ ہوجائے."

اس تکلیف دہ منظر کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا تھا.وہ غم سےنڈھال ہوگئے.بےاختیار ایکسرےکواٹھا کردیکھنےلگے.

"اب ہماری دوبارہ باری کب آئے گی؟"

یہ سوال بھی عفریت بن کے ان کے آگے کھڑا تھا.افضال اجمل نےایکسرےایک طرف رکھا اورچپ چاپ  کمرے سےنکل گئے.سڑک کےکنارے فٹ پاتھ پر پریشانی کےعالم میں بغیر کسی مقصد کےٹہلنےلگے.

"السلام علیکم ! " اپنےعقب میں آواز سن کر بےاختیار پلٹے.سامنےوالا چہرہ شناسا سالگا.مگر یاد نہ کرسکےکہ انھیں  کہاں دیکھا ہے.اس سےپہلے کہ وہ کچھ کہتے افضال اجمل نےخود کو کہتے سنا

"میں مزید نہیں جی سکتا ,میں خودکشی کرنےلگا ہوں .آپ جوبھی ہیں میرے رستےسےہٹ جائیں ."

اس جملےپر جہاں آنےوالےصاحب  پریشان نظر آئےوہاں خود افضال اجمل بھی حیران تھے.کہ یہ کیا کہ دیا..!

"نہ نہ بھائ توبہ کرو ,خودکشی بھلا مسائل کا حل ہے؟تم مجھےاپنی پریشانی بتاؤ ,شائد آپ کےکی مدد کرسکوں."

افضال اجمل کو امید کی کرن نظر آئ .اور اسے سارا حال کہ سنایا.آنےوالے صاحب نےافضال اجمل کا بازو پکڑا اور پنےساتھ لےگئے.ساتھ ساتھ کہ رہےتھے کہ "ذرا سوچو,اگر تم نےخود کشی کرلی تو آپ کےمسائل حل ہوجائیں گے؟نہیں بلکہ آپ کےگھر والوں پرایک اور مصیبت آجائےگی.اسی طرح مرنےکےبعد  کیا آپ کو  سکون آجائےگا؟اگرجاتےہی سزا شروع ہوگئ تو.....؟

یہ دنیا کی زندگی اور مصائب تو زیادہ سےزیادہ موت تک ہیں پھر ختم....!

سوچو 

 ع    اگرمرکےبھی چین نہ پایا توکدھرجائیں گے؟ "

افضال اجمل کواپنےفیصلےپر شرمندگی محسوس ہونےلگی.وہ صاحب  اسی طرح سمجھا رہے تھے.اتنےمیں وہ ایک میڈیکل سٹور کےپاس رکے.اوروہ صاحب ایک منٹ کا کہ کراندر چلےگئے.افضال اجمل کواب الجھن محسوس ہونےلگی.اتنےمیں وہ واپس آتےدکھائ دیے.ہاتھ میں کوئ دوا پکڑ رکھی تھی .اب وہ کہ رہےتھےکہ آپ کےدماغ کو حالات اور مسائل نےبری طرح متاثر کیا ہے.یہ دوا آپ کےلیے لایا ہوں .یہ آپ کو فرحت بخشےگی.اس میں سےدوتین قطرے اپنی زبان پر ابھی ٹپکالیں اور یہ عمل دو تین روز تک کرتے رہنا.اب وہ صاحب ایک گھر کا دروازہ کھول رہےتھے.افضال اجمل وہ دوا پکڑے متذبذب سے کھڑے تھے.پھر وہ افضال اجمل کو ڈرائینگ روم (مہمان خانے)میں بٹھا کر اندر چلےگئے.چندمنٹ بعد واپسی ہوئ تو اس کےہاتھ میں ایک گلک تھا. جسے افضال اجمل کےسامنے اس نےتوڑ دیا.اندر سےدس ,بیس اور سو والے بہت سارے نوٹ برآمد ہوئے.جسے ان  صاحب نے افضال اجمل کی گود میں ڈھیر کردیا.

"یہ کیا...؟"افضال اجمل بوکھلا گئے.

"یہ سب آپ کے ہیں.ان سے اپنےبیٹےکا کسی پرائیویٹ ہسپتال سےآپریشن کروالیں."

"آپ نےاپنا تعارف نہیں کروایا ."افضال اجمل ابھی تک حیران تھے.

"اس کا مطلب ہے آپ نے ابھی تک مجھےپہچانا نہیں, میں عثمان ارشاد ہوں .میرا بیٹا اسی کالج میں زیرتعلیم ہے .جس کالج کے آپ گارڈ ہیں .مجھے کئ بار وہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے.اورمیں ڈاکٹر اعجاز صاحب کے ہسپتال میں سیکیورٹی گارڈ ہوں."عثمان ارشاد نے اپنا تعارف کروایا.

اب افضال اجمل کو یاد آیا کہ عثمان ارشاد کا چہرہ کیوں شناسا سا لگا تھا.پھر اچانک پوچھا

"ڈاکٹر اعجاز ,جو وکٹوریہ میں بھی سرجن ہیں ؟"

انھیں خیال آیا تھا کہ آج اس کےبیٹے کا آپریشن بھی ڈاکٹر اعجاز نے کرنا تھا.اور اس کے خیال کی تائید عثمان ارشاد نےبھی کردی.

"جی بالکل,وہی اعجاز صاحب "

"لیکن یہ گلک اور پیسے...."افضال اجمل نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا.

"یہ میں نے اپنےوالدین کو عمرہ کروانے کےلیے جمع کیے تھے.لیکن اب آپ کےہوئے.عمرہ کون سا فرض ہے؟ اللہ پھرہمت دےگا تو والدین کوعمرہ بھی  کروادوں گا."عثمان ارشاد نےوضاحت کی.

اب افضال اجمل کا دل پیسےلینے کونہیں چاہ رہا تھا.لیکن دوسری طرف شدید مجبوری بھی تھی.آخر عثمان ارشاد کےاصرار پر وہ انھیں لےکر وکٹوریہ آگیا.جو تیس ہزار تھے.عثمان ارشاد کی دی ہوئ دوا ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی.اب افضال اجمل نےدوا کا نام پڑھا.جس پر لکھا تھا

Aurum met 30

 انھوں نے ڈھکن کھولااور چندقطرےپی لیے.پھرہوا خوری کےبہانے بیٹے کو وکٹوریہ سے باہر لےآئےاور ڈاکٹر اعجاز کے ہسپتال  لےگئے.اور اسی رات ان کےبیٹے کا کامیاب آپریشن ہوگیا تھا.دودن بعد وہ ہسپتال سے نکل رہےتھے.اپنےمحسن عثمان ارشاد کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولےتھے.اب ان کےلیےنیا مسئلہ بیٹےکی دوا خریدنا تھا.ان کی آمدنی سے بال بچوں کا پیٹ کاٹنا بھی مشکل تھا .دوائیں مہنگی بھی بہت تھیں.اس لیےافضال اجمل نےمنڈی میں جاکر مزدورکےطورپرکام  شروع کردیا .مغرب کےبعد جاتے اور دس گیارہ بجے واپس آجاتے.ایک روز واپس آرہےتھےکہ ایک شناسا سی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائ .

"السلام علیکم !"

وہ پلٹےتو پیچھے عثمان ارشاد کھڑے تھے.افضال اجمل نے گرمجوشی سے اسے گلے لگایا.

"وعلیکم السلام!یہاں کیسے آنا ہوا؟ "

"پہلے آپ بتائیں ."عثمان ارشاد نےمسکرا کر کہا.

افضال اجمل نےصاف صاف بتادیا .

"دراصل میں کئ سال سےیہاں مزدور کےطور پرکام کررہا ہوں .میرے گھریلو حالات بھی آپ سےمختلف نہیں ,کیوں کہ میں بھی فقط سیکیورٹی گارڈ ہوں.لیکن مجھےاپنےوالدین کوعمرہ کروانےکی بڑی خواہش ہے.بس اسی خواہش کےہاتھوں مجبور ہوکر یہاں کام کرتاہوں.اور ایک گلک میں پیسےجمع کرتا رہتاہوں."

"وہی خون پسینےکی کمائ اس دن آپ نےمجھےسونپ دی؟"افضال اجمل نےحیرانی سےپوچھا 

"جی ہاں !عمرہ فرض نہیں ہے.ہاں قرآن کی ایک آیت نےمجھےایسےکرنےپرمجبور کیا.اللہ فرماتےہیں:

القرآن - سورۃ نمبر 5 المائدة

آیت نمبر 32

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

َمَنۡ اَحۡيَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحۡيَا النَّاسَ جَمِيۡعًا ‌

ترجمہ:

 جس نے زندہ رکھا ایک جان کو تو گویا زندہ کردیا سب لوگوں کو....."

"لیکن وہ دوا(Aurum met 30)کا کیا معمہ تھا؟" افضال اجمل نےسوال کیا

"وہ,دراصل خودکشی سےبچانےوالی دوا ہے."عثمان ارشاد نےہنستےہوئےکہا.

"کیا مطلب..؟"

"ماضی قریب کےڈاکٹر ناصرالدین سید جوایک لکھاری اورنیک انسان بھی تھے.انھوں نےلکھا ہےکہ یہ دوا خودکشی کےخیالات کو ختم کرتی ہے.دوتین قطروں کا ایک دن تک اثر رہتا ہے.اور دوتین دن کےاستعمال سےہمیشہ کےلیےایسےخیالات سےچھٹکارا مل جاتاہے."عثمان ارشاد نےوضاحت کی.

"یعنی ایسا شخص پھر کبھی بھی خود کشی نہیں کرتا؟"افضال اجمل نےبےیقینی کےعالم میں کہا.

"بالکل , یوں ایک قیمتی جان بچ جاتی ہے."عثمان ارشاد مسکراتے ہوئےبولے

"آپ نےتو واقعی میری جان بچائ ہے.بلکہ میری نہیں ,پوری انسانیت کی جان بچائ ہے."

"یہ تو میرا فرض تھابھائ !جو انسان انسان کےکام نہیں آتاوہ انسان ہی نہیں ہے.بلکہ درندہ ہے.جس کےدل میں "احساس "نہیں ہے."

پھراچانک کچھ یاد آنےپرافضال اجمل نےکہا

"جو آیت کل آپ نےمجھےبتلائ تھی .اس کامیں نےمطالعہ کیاتو حیران رہ گیاکہ اس میں یہ بھی لکھاتھا کہ جس نےناحق ایک انسان کوقتل کیا گویا اس نےساری انسانیت کو قتل کیا.میں نےاس سےاخذ کیاکہ اگر میں خودکشی کرلیتا تو یہ "ظالم سماج" نہ صرف میرا قاتل ہوتا بلکہ ساری انسانیت کا قاتل ٹھہرتا."

"نتیجہ تو آپ نےخوب  نکالا لیکن ایک بات بھول گئے کہ آپ,کا قاتل بلکہ ساری انسانیت کا قاتل صرف معاشرہ ہی نہیں بلکہ آپ خود بھی جواب دہ ہوتے."عثمان ارشاد نےمسکراتے ہوئےکہا.چوں کہ رات کافی بیت چکی تھی. اس لیے انھوں نےایک دوسرے کوخدا حافظ کہا اور گھروں کی جانب چل دیے. 

https://hifsaalmas.blogspot.com/ پرمزید آپ پڑھ سکتے ہیں ۔ تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پہ کلک کیجیے۔

Post a Comment

2 Comments

Anonymous said…
الحمد للہ
Hifsa Almas said…
تحریر پڑھنے کے لیے شکریہ۔