Hifsaalmas

پچھتاواازقلم طیبہ تبسم

 پچھتاوا

ازقلم طیبہ تبسم

کیا کھو گیا ہے؟جو ہر جگہ ڈھونڈ رہے ہو۔کیاہو گیا ہے۔کس کا انتظار ہے۔کیوں راتوں کو جاگتے ہو۔کس کے لیے جاگتے ہو۔کون تم سے ملنے آتا ہے جو راہیں دیکھتے ہو۔کون آئے گا تمھیں بتانے کے اب کھا نے کا وقت ہے کھا لو۔کس کے لیے دماغ کو سولی پر رکھا ہوا ہے۔کیوں خود کو سارا سارا دن گھماتے اور تھکاتے ہو۔کہاں ہے طبیب تمھارا۔کون ہے جس کو فکر ہے تمھاری۔کس کے لیے کما رہے ہو۔کون سے کل کا انتظار ہے۔وہ کل وہ امید وہ طبیب وہ تمھارا خیال کرنے والا وہ تمھاری جان کا رکھوالہ تو آسمان میں ہے۔ وہ سن رہا ہے دیکھ رہا ہے۔مگر تم اس کو چھوڑ کر دنیا میں مگن ہو گئے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔!! وہ صرف سن رہا تھا۔سب سن رہا تھا۔خاموشی سے زمین پر بیٹھے۔ہاتھوں سے سر تھامے وہ صرف بے حسی سے شاید سن بھی غور سے نہیں رہا تھا۔آآہ!!  وہ کراہا۔تکلیف اس قدر تھی کہ اس کو لگ رہا تھا ابھی کوئ نس پھٹے گی اور اس کا کام آسان کر دے گی۔مگر نہیں ایسا نہیں ہوتا رگیں تن جاتی ہیں مگر پھٹتی نہیں۔وہ بینچ  پر بیٹھا تھا۔اب زور زور سے سانس لے رہا تھا۔اپنے اندر ہوا کھینچ رہا تھا۔اس کو لگ رہا تھا اب اگلی سانس آخری ہوگی۔آنکھیں خشک تھی۔لب سوکھے ہوے تھے۔نہ موت آرہی تھی۔مگر سب سوال جو اس سے کیے جا رہے تھے وہ صرف ان کو سن ہی رہا تھا۔اس کا دوست جو شاید ادھر سے گزر رہا تھا آج پھر اس کی حالت پر افسوس کیے رک گیا تھا۔ان دونوں کی دوستی کو بہت سال گزر چکے تھے مگر نہ جانے کیا بات تھی۔پچھلے کچھ مہینوں  سے وہ اسے ایسے ہی دیکھ رہا تھا صرف اذیت میں۔کیا ہوا ہے یار تو کیوں ہر وقت جان کا دشمن بنا بیٹھا ہے آخر کیا ہو گیا ہے تجھے۔بلال اپنے بھائ جیسے دوست سے پوچھ رہا تھا۔معاذ بے بسی سے اس کو دیکھ رہا تھا۔کیوں اتنی تکلیف میں ہو۔ایسا کیا ہے جو نہیں بتاتے۔۔۔۔۔۔۔۔!!کبھی کبھی ہم اپنے غم چھپاتے ہیں کیوں کہ وہ غم اصل میں گناہ کی صورت ملے ہوتے ہیں۔کوئ ایسا کام ہم کر چکے ہوتے ہیں جو ہم بتانے سے ڈرتے ہیں حالانکہ اپنے رب کے سامنے جانے سے بھی نظریں چراتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!بلال معاذ کو بار بار بلا رہا تھا۔مگر وہ خاموش تھا۔آج وہ فیصلہ کر چکا تھا اس کو آج وہ اس حال میں یوں چھوڑے کہیں نہیں جائے گا۔اٹھو! اٹھو معاذ میرے ساتھ چلو۔۔۔وہ اس کو بازو تھامے اس کو اپنے ساتھ مسجد لے کے گیا۔وہاں جا کر دونوں نے پہلے جوتے اتارے ۔معاذ تو سب بھول چکا تھا اس کو تو بس اتنا یاد تھا کہ رب کا گھر ہے یہاں پاک ہو کر آتے ہیں۔وہ کھڑا بلال کو دیکھ رہا تھا۔بلال نے اس کو ہاتھ پکڑا اور وضو خانے کی طرف لے گیا۔یہ کیا۔۔۔۔معاذ بھول چکا تھا وضو کیسے کرتے ہیں۔آ کھیں تر تھیں۔معاذ جان چکا تھا کہ وہ خود کو بھی نہیں جانتا۔معاذ نے اس کے بازو اوپر کیے۔کالر ٹھیک کی اور اس کو وضو کا بتانے لگا۔دونوں نے وضو۔ کیا اور نماز کے لیے صف پر کھڑے ہو گئے۔اس کو لگا اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔جان نکل رہی ہے۔مگر وہ کھڑا تھا۔وہ کیسے کھڑا تھا۔رب کے سامنے کھڑا تھا۔اس رب کے سامنے جس کے نام پر آج سے پانچ سال پہلے اس کے آگے ہاتھ جوڑے گئے تھے اس کے واسطے ڈالے گئے تھے مگر وہ درندہ بن چکا تھا وہ شاید اس وقت اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کوئ اوباش لڑکا نہیں تھا۔بلکہ ایک بہت امیر اور شریف خاندان کا لاڈلا بیٹا تھا۔جو ایک کامیاب بزنس مین تھا۔جس پر بظاہر تو دنیا فخر کرتی تھی مگر ایک جان ایسی تھی جو اس کی درندگی سے واقف تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!معاذ کن سوچوں میں ہو۔چلو نماز پڑھو۔بلال نے اس کو کھویا ہو ا پایا تو جھٹ سے بولا۔اب وہ سجدے میں تھا۔یہ کیا اللہ نے اس کو کچھ نہیں کہا تھا رب نے اس کو کوئ تھپڑ نہیں مارا نہ اپنے گھر سے نکالا۔ہچکی بندھ گئ آنسو خلق میں اٹک گئے۔نماز کے بعد وہ بنا دعا مانگے مسجد سے باہر آگیا۔بلال بھی اس کے پیچھے تھا۔واپس اسی پارک میں موجود تھے دونو جو ان کے گھر کے بالکل نزدیک تھا۔۔۔۔۔۔۔۔!!رات کا وقت تھا ہر طرف خاموشی تھی۔بلال اس کے قریب بیٹھ گیا اور بولا چلو بتاو اب اور وہ سب بتانا جو تمھیں سر جھکانے پر مجبور کرتا ہے۔جو تمھیں ختم  کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!معاذ چپ تھا.وہ اس کو جھنجھوڑتے ہوے بولا بتاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بولنے کی کوشش کرنے لگا۔آج زبان خود سب بتانا چاہ رہی تھی اس کا ہم راز جگری یار سامنے تھا۔رب نے اس کو وسیلہ بنائے اس کے لیے بیجھا تھا۔مگر وہ سب اس کو بھی نہیں بتانا چاہتا تھا۔اس کو ماضی اس قدر بد صورت تھا۔۔۔۔۔۔!! مگر آج اس کو سب کچھ بتانا تھا۔وہ جو مسیحا بنے کھڑا تھا اس کو سب کچھ بتا نا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔بلال میں ایک گھٹیا شخص ہوں۔میں وہ معاذ نہیں ہوں جس پر تم اور باقی سب فخر کرتے ہو۔میری اچھی شخصیت اور اچھا دکھنا میرے ماضی کے گناہ نہیں نہیں چھپا سکتا۔یاد ہے آج سے پانچ سال پہلے جب میں اسلام آباد جا رہا تھا اعلی تعلیم کے لیے تو میں نے تمھیں کہا تھا دیکھنا ایک دن ایک کامیاب انسان بن کے واپس آؤں گا۔جس سے نہ صرف رشتے دار بلکہ یہ گاؤں کے لوگ بھی رشک کریں گے۔پھر میں کامیاب انسان تو بن کے آگیا قابل رشک بھی ہو گیا سب کے لیے۔مگر میں ضمیر کا سودا کر آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!تین سال پہلے میری ملاقات ایک خوبصورت دو شیزہ سے ہوئ وہ بہت اعلی اخلاق کی مالک ایک قابل تعریف لڑکی تھی۔میرے دوست کی شادی پر میری ملاقات اس سے ہوئ۔ہم دونوں میں بہت اچھی دوستی ہوگئ۔ہم اکثر اکٹھے بیٹھتے اور اپنی زندگی کو ڈسکس کرتے تھے۔وہ بہت سمجھدار لڑکی تھی۔مجھے اس کو سننا اور اس کو میرا بولنا پسند تھا۔دھیرے دھیرے محبت نے اپنی لپیٹ میں لیا اور وہ دوستی کا رشتہ پیار میں بدل گیا۔مگر مجھے اس سے محبت نہیں تھی میں صرف اسے کچھ وقت دیتا تھا۔شادی تک دونوں ہی شاید نہیں جا سکتے تھے۔مگر وہ میری محبت میں پاگل تھی۔ایک دن اس نے مجھ سے آخری بار ملنے کا کہا شاید وہ اس دن مجھے بتانے آرہی تھی کہ اس کی زندگی میں مزید میرے لیے حصہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوپہر چار بجے ہم دونوں ساتھ تھے۔میں نے ان دنوں ایک فلیٹ لے رکھا تھا۔میں اس کو لیے فلیٹ میں آگیا۔میں نے اسے یہی کہا کہ ہم سکون سے بات کریں گے۔وہاں کوئ نہیں ہوگا۔مگر تنہائ میں شیطان موجود ہوتا ہے۔وصل ہو تو چراغ بجھ ہی جاتے ہیں۔اس دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔میں سب بھول گیا کہ کسی کے گھر کی عزت مان اور فخر میرے پاس موجود ہے۔میں اپنی تربیت تک بھول گیا۔اس وقت میں خود کو نفس کی زد میں روند چکا تھا۔وہ میرا یہ روپ دیکھ کر گھبرا رہی تھی۔ت ت تم کیا کر رہے ہو دور ہٹو مجھ سے۔پلیز۔۔۔۔۔!! وہ واسطے ڈال رہی تھی۔مجھے رب کا قہر بتا رہی تھی ۔گر میں مردانگی دکھا چکا تھا۔میں اپنا ضمیر کچل کر وہ سب کر گیا جو ایک خاندانی مرد کی شان کے بھی خلاف ہے۔وہ روتی چلاتی پھر بے حس پڑی رہی۔مگر میں اس چڑیا پر ظلم کر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!وہ رو رہا تھا بلال کا دل کیا اس کو مار دے۔اس وقت وہ خود کو روکے صرف سن رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلال تم جانتے ہو مجھے میں ایسا نہیں ہوں مگر پتہ نہیں کیوں یہ سب ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! پھر وہ لڑکی مجھے نہیں ملی۔میں اپنی مصروفیات میں رہا۔اور ایک دن ڈگری لیے اور کامیاب ہوکر واپس آگیا۔اور گھر والوں نے میری شادی طے کر دی۔اور جب ایک دن میں کسی کام کے سلسلے میں شہر گیا تو ایک بس سٹاپ پر مجھے وہی لڑکی ملی جو ایک چھوٹے سے بچے کو پکڑے کھڑی تھی۔شاید وہ بہت بیمار تھی۔وہ بہت کمزور لگ رہی تھی۔جیسے کوئ بہت تکلیف میں ہو۔اس سے پہلے میں اس کے قریب جاتا وہ مجھے دیکھے ڈر کے جلدی سے میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! وقت گزرتا گیا اللہ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا میں ہسپتال میں تھا کہ میرے کانوں میں آوازیں سنائی دیں جو کسی عورت کی رونے کی آواز تھی۔میں نے جب مڑ کے دیکھا تو وہی لڑکی تھی۔جو جائے نماز پر رو رو کر دعا مانگ رہی تھی۔میں اس کے قریب گیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔میں شرمندہ تھا میں معافیاں مانگنے لگا۔شاید میں ایک بیٹی کا باپ بن چکا تھا۔اپنے اعمال سے مجھے خوف آرہا تھا۔لوگ رحمت پا  کر خوش ہوتے ہیں میں رو رہا تھا۔وہ لڑکی خاموشی سے اٹھتی ایک طرف چل دی میں بھی اس کے پیچھے تھا۔وہ ڈاکٹر سے کچھ پوچھ رہی تھی اور ڈاکٹر نہ جانے کیا کہہ رہا تھا۔وہ مڑی اور اب کسی دوسرے ڈاکٹر کے آگے جا کر رو رو کر کچھ کہنے لگی میں جب پاس گیا تو معلوم ہوا۔ بچہ آخری سانسیں لے رہا ہے وہ بھی مصنوعی مجھے یہ جان کر اچھا خاصہ دکھ بھی ہوا میں نے ڈاکٹر سے کہا کے آپ اس بچے کا خیال کریں پیسوں کی فکر مت کریں۔مگر پتہ چلا کہ اس کے دل میں سوراخ ہے۔۔۔۔!! میں واپس اس لڑکی کے پاس آیا اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔وہ پہلے تو میری شکل بھی نہیں دیکھ رہی تھی مگر بعد میں مجھ پر جھپٹی جتنا غصہ تھا وہ سب نکال پھینکا۔مجھے مارنے لگی۔اور پھر چیخ چیخ کر رونے لگی بہت سارے لوگ یہ سب دیکھ بھی رہے تھے مگر میں صرف مجرم بنا کھڑا تھا۔وہ روتے ہوے بولی وہ تمھارا بچہ ہے۔گھر والوں سے آج تک رابطہ نہیں کیا اور اب ایسے در بدر پھرتی ہوں۔بیمار ہوں ڈاکٹر نے کینسر بتایا ہے علاج کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔اتنے میں بچے کا مردہ وجود اس کے ہاتھوں میں تھمایا گیا وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔میں ڈاکٹر کو بلا تا بچہ اٹھائے کھڑا تھا۔ڈاکٹرز نے اس کو ایمر جنسی میں رکھا تھا۔بچے کے کفن دفن کے بعد میں ہسپتال کے باہر ہی کھڑا تھا میرے گھر والے بھی وہی تھے وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ میرا کیا رشتہ ہے ان سے اور میں خاموش تھا.پھر وہ اندر زندگی موت سے لڑتی مجھے پکارنے لگی شاید ایک آخری بار وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔ میں اس کے قریب گیا تو وہ صرف اتنا بولی۔اللہ سے دعا مانگنا رب تمھیں بیٹی نہ دے اور اگر دے تو اس کو اکیلا کبھی مت کہیں جانے دینا اور اس پر اعتبار بھی مت کرنا بیٹیاں جھوٹی ہوتی ہیں وہ عزتیں روند دیتی ہیں اور جب بیٹے کے باپ بنو تو بھی ڈرنا کیوں کے وہ تمھارا عکس ہو گا۔میں چپ تھا۔میں اس کو بنا جواب دیے مڑا۔اور سب گھر والے مجھ سے سوال کرنے لگے ان کے سوالوں کو کہیں چھوڑے میں وہاں سے سیدھا گھر آگیا اور گھر آتے ہی میں نے خود کشی کا ارادہ کیا مگر رب کے سامنے جانے سےمجھے خوف آنے لگا اور میں پھر  کتنی دیر ماضی میں کھویا رہا۔گھر سب کو میں نے جیسے تیسے کر کے بات بنا کے چپ کروا دیا۔اور میری بیوی تجسس میں تھی۔جو آج بھی ہے اور وہ لڑکی آج بھی ہسپتال میں پڑی ہے کتنے مہینے ہو چکے ہیں۔میں جب بھی اس سے مل کر آتا ہوں تو اس کا مردہ وجود مجھے چیخ چیخ کر  میرا ظلم یاد کرواتا ہے۔میں نے کیا کر دیا تھا۔

unplash


میں ایک زانی ہوں آخر کیوں ہوا وہ سب۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔بلال اس کے پاس بیٹھا سب سن کر آنکھوں میں آنسو لیے بولا جاو اپنے رب سے معافی مانگو شاید سزا میں کمی آجائے ۔شاید وہ تمھیں معاف کر دے۔وہ چپ بیٹھا صرف پچھتا رہا تھا وہ مکافات عمل کو سوچ کر رو رہا تھا۔بیٹی کا نصیب اسے ڈرا رہا تھا۔اچانک ہسپتال سے کال آئ  پتہ چلا وہ مر چکی تھی۔وہ چیخنے لگا اس کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور اس کی لاش ان کے حوالے کرتا وہ پارک کے بینچ پر بیٹھا موت کو ترس رہا تھا۔مگر موت دور کھڑی اس کی سسکیاں سن رہی تھی۔وہ زندگی سے تھک چکا تھا۔زمین پر اس کا رہنا محال تھا۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments