Hifsaalmas

کیا یہ ہے پاکستان ؟ازقلم:خدیجہ جاوید

 کیا یہ ہے پاکستان ؟

ازقلم:خدیجہ جاوید


میرا پاک وطن ڈوب رہا ہے کہیں پانی میں ڈوبتے لوگوں کی صورت میں، کبھی خون میں ڈوبے کشمیر کی صورت میں، کبھی نا اہل حکمرانوں کی صورت میں، کبھی عدلیہ کی نا انصافی کی صورت میں ، کہیں امیروں کے تکبر اور گھمنڈ تو کہیں غریبوں کی مایوسی کی صورت میں ،کہیں فرقہ پرستی تو کہیں جنس پرستی کی صورت میں ، کہیں مغربیت عروج پر ہے تو کہیں دین سے بیزاری۔

کیا یہ ہے پاکستان ؟ کیا یہ ہے پاک لوگوں کی سرزمین ؟ کیا یہ ملک اپنے مطلب پر پورا اترتا ہے ؟ کیا صلہ دے رہے ہیں ہم اپنے اسلاف کو ؟ کیا اس پاک زمین کے ٹکڑے کو حاصل کرنے کیلئے جو قربانیاں دی گئی تھیں وہ رائیگاں گئیں ؟ مذہب کے نام پر اور آزادی کے نام پر جس زمین کا مطالبہ کیا گیا تھا، کیا اسی لیے کیا تھا؟ کہ پھر سے زمانہ جاہلیت کا دور شروع ہو گیا ہے۔ لوگ مفاد کے زیرِ اثر اس قدر اندھے اور بہرے ہو چکے ہیں  کہ دھوکا دہی اور فریب دینا مقصود ہو گیا ہے ۔ باہر کے ممالک کے لوگ ان سے اس قدر تنگ آ گئے ہیں کہ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگ گئے ہیں ۔کیا یہی ہے مسلمانوں کے سوچ اور اعمال۔ ہمارے اعمال ہماری سوچ کی عکاسی کرتے ہے اور یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کتنی باشعور قوم ہیں کہ پانی میں ڈوبتے ،مرتے لوگوں کو چھوڑ کر ان کے لیے کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں جو خود کو  اعلیٰ حاکمیت کے درجہ پر رکھتے ہے جن کو سازشیوں کے علاؤہ کچھ نہیں آتا اور جیتنے کے بعد ان کو لوگوں کی خبر تک نہیں ہوتی، اور کہتے ہیں کہ ہم تو غلام ہیں۔ اگر تاریخ پر


نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم جس فخر سے خود کو پاکستانی کہتے ہیں اس کے مطلب پر پورا ہی نہیں اترتے ۔

دوسروں کی دل آزاری کر کے ہم بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا یہ سب ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے؟ تو کیا ہمارے ساتھ جو ہوتا ہے وہ آزمائش ہے؟ کیا یہ آزمائشیں ہے یا یہ ہمارا کیا ہمارے پر واپس پلٹ رہا ہے؟

ہمارا ہر عمل ہر سوچ وہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ ہمارے معاشرے اور ملک پر اثرانداز ہوتا ہے اگر ہم مثبت سوچ رکھتے ہیں اور وہی بروئے کار لاتے ہیں تو ہمارا معاشرہ ترقی کا زینہ چڑھ سکتا ہے اگر ہر کوئی دوسروں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیے اور خود کو بدلنے میں مصروفِ عمل ہو جائے تو یہ معاشرہ بہت جلد کامیاب ہو سکتا ہے ۔لیکن اگر اسی طرح آنکھیں بند کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ گئےتو خدا ناخواستہ ہم اپنے ملک کو نہ کھو دیں۔

"کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت قبول کرتے ہیں" 

(126 سورۃ التوبہ)

آئیے دوستوں ایک عہد کریں کہ اپنے ملک کو سنوارنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ اپنے ان بہن بھائیوں کی مدد کریں جو سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں ،جو بھوک پیاس سے مر رہے ہیں، ان کو دلاسہ دیں جو اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں ،کیونکہ ہم ایک قوم ہیں ہمارا فائدہ و نقصان ایک ہے ،کوئی سندھی ،بلوچی پنجابی،پٹھان نہیں، ہم سب کی ایک ہی تاریخ ، ایک ہی ملک اور ایک ہی پہچان ہے، بنا تاخیر کئے برادری کا بھرم رکھ کر ان سب کا ہاتھ تھامیں ، لوگوں کے حالات کو نمایاں کرنے کے بجائے، ان کے لئے حفاظت کے اقدامات اٹھائیں، اور


دوسرے ممالک سے مدد لینے کے بجائے خود ان کےلئے کمربستہ ہو جائیں ،تو ہم ان مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں

 علامہ اقبال فرماتے ہیں

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویران سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی 

اللہ ہم سب کو حفظ وامان میں رکھیں اور ہمیں آسانیاں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائیں ۔

آمین 

صدا شاد و آباد رہے میرا وطن دعا ہے میری 

میں رہوں یا نہ رہوں میرا وطن رہے قیامت تک

Post a Comment

0 Comments