قلم کا حق ادا کیا
از قلم تعبیر فاطمہ
ارسلان جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو حمنہ کو موبائل میں مصروف پایا۔
"کیا ہو رہا ہے بیگم؟"ارسلان اپنے جوتے اتارتے ہوئے بولا۔
حمنہ جو لکھنے میں اس قدر گم تھی، اُسے ارسلان کے آنے کا پتا بھی نہیں چلا۔
"ارے آپ کب آئے؟مجھے تو پتا بھی نہیں چلا۔"حمنہ موبائل ایک طرف رکھ کر کچھ شرمندہ ہوئی۔
"ابھی ابھی جب آپ اپنا ناول لکھنے میں مگن تھی۔ویسے کیا لکھ رہی تھیں؟"
"اپنے ناول کی قسط۔۔۔آپ کہاں گئے تھے سارا دن نظر ہی نہیں آئے؟"حمنہ نے معصومیت سے پوچھا۔
"بتایا تو تھا اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر فنڈز اکھٹا رہا ہوں،کچھ راشن وغیرہ جمع کیا ہے،کئی سیلابی جگہوں پر گئے تھے۔اُن کو امداد دینے۔"ارسلان کا چہرہ ایک دم اُتر گیا تھا اُسے وہ منظر یاد آیا جب وہ سیلاب زدگان کی اُجڑی حالات،بھوک سے بے حال بچے،بے گھر عورتیں مرد دیکھ کر آیا تھا۔
"ہممم۔۔۔چائے بناؤ؟"حمنہ نے ارسلان کی بات پر خاص توجہ نہیں دی۔
"ہاں بناؤ میں بھی باہر ہی آتا ہوں۔"حمنہ اور ارسلان کی شادی کو ابھی چھ ماہ ہوئے تھے۔دونوں ایک ساتھ بہت خوش تھے۔حمنہ کو لکھنے کا بہت شوق تھا اس لیے وہ آنلائن ناولز لکھ کر اپنا شوق پورا کرتی تھی۔حمنہ کا نام بڑے بڑے آنلائن رائٹرز میں شمار ہونے لگا تھا۔
ارسلان نے محسوس کیا جب بھی وہ سیلاب زدگان کے بارے میں بات کرتا ہے تو حمنہ چپ کر جاتی ہے کوئی خاص ریکشن نہیں دیتی۔چائے کے دوران ارسلان نے دوبارہ وہاں سے بات جوڑی تھی جہاں سے بات آدھی رہ گئی تھی۔
"ہاں تو رائٹر صاحبہ آج کل کونسی اسٹوری لکھ رہی ہیں،کس قسم کی،سوشل،رومینٹک، یا مورال؟ارسلان نے چائے کا سپ لیتے ہوئے بغور اس کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔حمنہ گلابی رنگ کے لباس میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔
"رومانٹک۔۔۔۔ایک لوو اسٹوری ہے"حمنہ نے مسکرا کر کہا۔
"حمنہ تمہیں نہیں لگتا کے تمہیں ملک کے موجودہ صورتحال کے بارے میں کچھ لکھنا چاہیے،جیسے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بارے میں۔۔۔"حمنہ نے ارسلان کی بات آدھے میں کاٹی۔
"نہیں ارسلان لوگ ایسی اسٹوریز پسند نہیں کرتے،وہ لوگ چاہتے ہیں کے ہم اُنہیں فنی،رومینٹک،اسٹوریز لکھ کر دیں،لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ ہماری زندگی میں پہلے تلخیاں کم ہیں جو اس قسم کی تلخ حقیقتیں آپ ہم تک پہنچاتی ہیں۔ایسی خبریں تو میڈیا بھی دیتا ہے۔
ریڈرز کو انٹرٹینمنٹ چاہیے۔اور میں خود اس بارے میں بات نہیں کرتی مجھے دُکھ ہوتا ہے میں دیکھ نہیں پاتی"حمنہ نے اپنی ٹھنڈی چائے اٹھاتے ہوئے کہا اُسے ٹھنڈی چائے پینے کی عادت تھی۔
"بہت افسوس ہوا یہ سن کر۔۔۔لوگ مر رہے ہیں،بے گھر ہوگئے ہیں،بچے بوڑھے فاقوں سے مار رہے ہیں،سب کے پیارے بھ گئے،اُنہیں یہ تک پتا نہیں اُن کے پیارے زندہ ہیں یا مر گئے۔سب کے گھر اُن کے آشیانے مال مویشی کاروبار فصلیں کچھ بھی تو نہیں بچا۔ہمارے پیارے ہم وطنوں کی لاشیں پانی میں تیر رہی ہیں۔اُن کو نکالنے والا کوئی نہیں۔اُمت مسلمان پر ایک آفت ٹوٹ پڑی ہے۔۔۔۔مگر لوگوں کو اب بھی لوو اسٹوریز پڑھنی ہیں؟یہی تو ہمارے قوم کا المیان ہے۔حقیقت سے نظریں چراتے ہیں،"ارسلان نے ٹھنڈا سانس لیا۔
"ایسا تو مت بولیں ارسلان۔۔سب کو دکھ ہے،سب پریشان ہیں،ہر آنکھ نم ہے۔رائٹرز ہوں یا ریڈرز ہوں یا کوئی بھی ہو سارا ملک بہت افسردہ ہے۔
مگر ہم آنلائن رائٹرز کر بھی کیا سکتے ہیں؟کیا ہمارے اس بارے میں لکھنے سے لوگوں کے سوئے ضمیر جاگ جائیں گے؟کیا میرے لکھنے سے لوگ مدد کو بھاگے بھاگے آئیں گے؟"حمنہ اب ارسلان کے طرف دیکھ رہی تھی اُسے اپنے سوالوں کے جواب چاہیے تھے۔
"میری پیاری بیوی انسان کے لیے بس آگاہی کا ایک لمحہ بھی کافی ہوتا ہے۔ہوسکتا ہے کوئی اپنے اے سی کے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر اچھے موڈ میں آپ کا کوئی تحریر پڑھ رہے ہوں،اور آپ کے لفظوں کی تاثیر،آپ کی انداز بیان اُن کے دل پر اثر کر جائے،جب کسی اور کی بات اثر نہ کرے۔جب خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا گیا تو اس چھوٹی سی چڑیا نے یہ نہیں سوچا کے اتنا آگ ہے ایک میرے پانی ڈالنے سے تو نہیں بجھے گا،مگر اس نے اپنی حصے کا کام کر لیا،تاکہ جب وہ اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے تو وہ سرخرو ہو کر بتائے کے میں نے اپنے حصے کا کام کیا تھا۔
یہی سوال جب آپ سے پوچھا جائے کے ہزاروں لوگ مصیبت میں تھے آپ نے کیا، کیا؟تب آپ بھی سرخرو ہو کر بتائیں گی کے میں نے اپنے قلم کا حق ادا کیا تھا۔ویسے بھی یہ سوشل میڈیا کا دور ہے آنلائن کا دور ہے ہر کام آنلائن ہوتا ہے۔آپ کے پاس تو ایک پلیٹ فارم ہے لوگوں تک اپنی آواز پہچانے کا اپنے قلم سے جادو چلا کر دیکھو، پھر دیکھنا ہماری عوام کتنی عظیم ہے۔اپنے حلق کے نوالے تک مصیبت زدہ سیلاب سے متاثر لوگوں کو دےدی گی۔"ارسلان کی باتیں حمنہ کے دل کو لگی تھی۔اس نے ارسلان سے وعدہ کیا کے میں آج ہی ایک چھوٹا سا افسانہ تحریر لکھوں گی۔"
حمنہ رات دیر تک جاگ کر لکھتی رہی،لکھتے لکھتے اس کی اپنی آنکھیں بھیگ رہی تھی۔لوگوں کا درد محسوس کر رہی تھی۔حمنہ نے تحریر لکھ کر پوسٹ کردی تو رات کے ایک بج رہے تھے۔اُسے بہت نیند آرہی تھی۔صبح سنڈے تھا ارسلان کو بھی آفیس نہیں جانا تھا۔اس لیے وہ دیر سے جاگی۔چائے کا مگ اپنے سامنے رکھ کر موبائل اٹھایا تو حیران رہ گئی۔اس کی تحریر پر ہزاروں کے تعداد میں لائکس اور کمنٹس پڑے تھے۔ہر کوئی بول رہا تھا کے ہم اپنے گھر سے کچھ نہ کچھ عطیہ دینے کے لیے تیار ہیں۔حمنہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور ارسلان کو ڈھونڈتی ہوئی باہر لان میں آئی تو وہاں گیراج میں ڈھیروں سامان پڑا تھا لوگ کافی تعداد میں آ جا رہے تھے۔حمنہ تھوڑی حیران ہوئی۔
"ارسلان یہ سب کیا ہے؟حمنہ نے پوچھا۔
"رائٹر صاحبہ یہ آپ کے قلم کی طاقت ہے۔جس سے آپ انجان تھی۔آپ کی ایک پکار پر لوگوں نے راشن،اور ضرورت کے چیزوں کا ڈھیر جمع کیا۔آپ نے جو اپنے فینس سے امداد کی اپیل کی تھی اور،امداد جمع کرنے کے لئے گھر کا ایڈریس لکھوایا تھا۔"ارسلان نے مسکرا کر کہا تو حمنہ رونے لگی۔
"شکریہ ارسلان،اگر آپ میری توجہ اس طرف نہ دلاتے تو یہ سب کبھی نہیں ہو پاتا۔"حمنہ ارسلان کے گلے لگ گئی۔اور دل ہی دل میں بول رہی تھی یا اللہ تعالیٰ تیری شُکر ہے کے تو نے مجھے یہ توفیق دی، میں میں اپنے قلم کا حق ادا کردیا اور آگے بھی کرونگی۔انشاءاللہ۔
کیا حمنہ ارسلان کی طرح آپ سب بھی اپنے قلم کا حق ادا کر رہے ہیں؟
0 Comments