لوح ازل
"اور تمہیں راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھایا"
عریشہ اقبال
قسط نمبر:04
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے تقریباً 4:00 بجے فاطمہ کی آنکھ تہجد کی نماز کے لیے کھلی وہ اپنے قدم بستر سے نیچے سردی کی ان ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں ٹھنڈے فرش پر اپنے اللہ سے ملاقات کے لیے رکھتی کھڑی ہوئی اور حمد و ثنا کے الفاظ کہتی وضو خانے کی جانب بڑھنے لگی فاطمہ کے ہمراہ درخت،آسمان،اور اس کائنات کا ہر ذرہ اپنے خالق کی حمد و ثنا میں مصروف تھا۔جائے نماز فرش پر بچھا کر دل اور روح دونوں ہی اطمینان و سکون کی کیفیت کے ساتھ ساتھ نور سے منور تھے اس نے تکبیر کہی اور اپنے رب سے باتیں کرنے میں مشغول ہوگئ اس کے نزدیک زندگی کا ایک ایک لمحہ جو وہ گزار رہی تھی وہ بھی کسی گولڈن چانس کی مانند تھا جسے وہ تا حیات اپنے رب کی محبت اور اس کے رنگ کو پختہ کرنے اور دنیا کے ہر کونے میں بکھیرنے کی کوشش میں صرف کردینا چاہتی تھی۔ یہی تو فرق تھا عرش اور فاطمہ کی زندگی میں ! فاطمہ روح کی پکار سن کر اسے آباد کررہی تھی جبکہ عرش روح کی پکار کو ان سنی کیے یا شاید اس کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا شخص آیا ہی نہ ہو جو اسے روح کی جانب متوجہ کر سکے۔اسے تو بس نفس کی لذت اور اس کی تسکین کا سامان کرنے والے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا۔ یہی سوچ پروگرام والے روز فاطمہ کو شام چاۓ پیتے ہوئے اور اپنی ان ننھی سی چڑیاؤں کو دیکھ کر دماغ میں آئ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے نماز ختم کرکے سلام پھیرا اور دعا کے لیے بارگاہ الٰہی میں عشقِ حقیقی اپنے وجود میں سموئے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا کہ؛ " اے میرے رب اور تمام مخلوقات کے رب !! جن و انس،چرند پرند ،نہروں ،وادیوں ان ساری چیزوں کو تخلیق کرنے والے رب جلیل اور بے انتہا محبت رکھنے والے میرے اللہ بے شک تیرا ہی فرمان ہے کہ: " ہم نے کسی انسان کے دو دل نہیں بنائے" تو نے یقیناً میرے بھی اپنے فرمان حقیقی کے مطابق دو دل نہیں بناۓ ہیں میرے دل میں عرش بنت رانا خاور کی محبت کو تو نے ہی ڈالا ہے اور بے شک تیرے علم سے کوئ شے پوشیدہ نہیں تو میری فکر،میرے احساسات،میرے جزبات نیز میری ہر بات کو جانتا ہے ؛اس سے اس طرح واقف ہے جس طرح کوئ بھی نہیں میں جس ناچیز کا نام فاطمہ ہے تجھ سے دعا گو ہوں اور ہمیشہ کی طرح اس احساس کو لیے ہوئے تجھ سے مخاطب ہوں کہ جب حضرت ابرہیم علیہ السلام نے تجھ سے دعا مانگی تھی تو ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر کبھی محروم نہ رہا اسی طرح میں بھی تجھ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد و محروم نہیں ہوئ ۔ تیری قدرتیں،تیرے اختیارات کا مشاہدہ صبح و شام ان آنکھوں سے کرتی ہوں اے میرے پیارے اللہ تعالیٰ عرش کو اتنا حسین بنایا ہے اس کی زندگی کو یوں ضائع نہ ہونے دینا اس کا دل اپنی اطاعت کی جانب پھیر دیں اور مجھے بھی ہدایت عطا فرمائیں کہ ہدایت بغیر مانگے نہیں ملا کرتی الا یہ کہ جو تو چاہے جب تو کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو بس کہتا ہے کہ کن ( ہوجا) اور وہ چیز ہوجاتی ہے ۔ عرش کے پلٹنے پر بھی کن کہ دیں آمین کہتے اور اپنی آنکھوں سے موتیوں کی لڑیوں کو ہاتھوں کے اندر جذب کرتے ہوئے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہی اپنے قلب کو سکون ملتا محسوس کرتی جائے نماز سے کھڑی ہوئی اور دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے کھڑکی سے آسمان کو دیکھنے لگی جیسے امید کی کرن نمودار ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جانب عرش اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھے اپنے پیر لمبے کیے مزے سے پاپ کارن منہ میں ڈالتے ہوئے اپنے کانسرٹ اور لوگوں کی تعریفیں وصول کرتی ٹانگیں ہلا رہی تھی اور نوفل کا نام اوپر سکرین پر چمکتا ہوا دیکھ کر اس کے چہرے پر سج گئی نوفل نے لکھا تھا کہ :" کیا میں آپ کے ہمراہ آپ کی مصروفیات کا جائزہ لینے کے لیے چل سکتا ہوں؟
عرش :" جی بلکل مگر کیوں؟؟
نوفل کو وہاں اپنی گونٹ پھنستی ہوئ محسوس ہوئی مگر شیطان تو پھر شیطان ہے ناں اس کا تو کام ہی شیطانیت ہے اپنا کام مکمل کرکے ہی دم لیتا ہے نوفل کا دماغ پھر سے حرکت میں آنے لگا اور اس نے عرش کو جواب دیا کہ: " آخر دوست بھی تو دیکھ بھال کر بنانے چاہیئے ۔
عرش: تو مجھے دوستی کی پیشکش کیا سوچ کر کی تھی آپ نے مسٹر نوفل
نوفل سنبھلتے ہوۓ : " میرا مطلب ہے کہ آپ کے اچھے ہونے میں یقیناً کوئ شک نہیں مگر عرش میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کس طرح کے شوق رکھتی ہیں آپ کیسے لوگوں سے ملنا پسند کرتی ہیں عرش کو جواب موصول ہوتے ہی ایک لمحے کے لیے حیرت بھی ہوئی اور تجسّس بھی کہ آخر یہ شخص ہے کیا چیز ہر سوال کا جواب اس کے پاس موجود ہوتا ہے اس نے کہ دیا کہ:" مجھے کوئ اعتراض نہیں۔نوفل کا مقصد پایہ تکمیل کو پہنچنے والا تھا جس کی اسے بے حد خوشی تھی کیونکہ عرش کے ساتھ تعلق استوار کرنے کے پیچھے جو شیطانی سوچ کام کررہی تھی وہ یہی تھی کہ وہ کسی طرح یہ معلوم کر سکے کہ عرش کس وقت کہاں جاتی ہے!...۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے روز عرش اور نوفل یونیورسٹی کی چھٹی کے وقت ایک ساتھ نکلے ، عرش کی دوستوں نے بارہا عرش سے نوفل کے متعلق سوالات کیے تھے اور اس وقت بھی وہ عرش سے پوچھ رہی تھیں کہ: " کہاں جارہی ہو ؟ ہینگ آؤٹ کا پلان ہے کیا؟ عرش نے اپنے مخصوص انداز میں کندھے اچکا کر کہا : " جارہی ہوں بس دوست ہے تھوڑی دیر تک واپسی ہوجائے گی فاطمہ وہاں کھڑی سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی دوستوں نے واپسی کے متعلق اس لیے سوال کیا تھا کیونکہ ان کا رات ڈنر کا پلان طے پاچکا تھا۔ فاطمہ کا دل ایک لمحے کو اس خیال میں ڈوبا کہ " میں عرش کو لے کر یہاں سے کہیں بہت دور چلی جاؤں اور زندگی کے ان جھوٹے،تلخ،اور پیکھے رنگوں کی حقیقت اسے بتاؤں مگر اس نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی:" یا اللہ تعالیٰ اس کی آنکھیں کھول دیں ،اسے حقیقی علم کی روشنی دکھائیں کہ جسے آپ نور نہ بخشیں اس کے لیے پھر کوئ نور نہیں" بے شک آپ ہی دلوں کو پھیرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
0 Comments