Hifsaalmas

کتاب اے کاش ۔شاعرہ عینی ملک۔تبصرہ نگار: تہنیت آفرین ملک

 کتاب اے کاش 

شاعرہ عینی ملک

تبصرہ نگار: تہنیت آفرین ملک 

حقیقت کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنا کوئی آسان فن نہیں ۔۔۔۔کیونکہ احساسات  روح کی زبان ہوا کرتی ہے ایک شاعر اپنے حساسیت کو جب روح کی اتاہ گہرائیوں سے روشناس کروا کر صفحہ قرطاس پہ بکھیرتا ہے تو وہ امر کرتا ہے۔

ایسا ہی ایک امر سیالکوٹ کی  کامنی لڑکی عینی ملک نے " اے کاش" کی شکل میں کیا۔۔جو کہ بلاشبہ ایک بہترین تخلیق ثابت ہوئی۔۔۔۔۔

جذبات و احساسات کی شاعرہ عینی ملک نے اے کاش میں اپنے جذبات کو الفاظ کے پیرائے میں ڈھال کر شاہکار تخلیق کیا ہے۔

اکہتر نظموں کے مجموعے پہ مشتمل اے کاش اردو ادب کی ترقی و ترویج کی طرف ایک اہم قدم ہے ۔۔۔۔کچھ نظموں کہ عنوان یوں ہیں۔۔۔۔۔۔بابا جانی، خاموش آنسو،میں اور چاند،سچی باتیں، درگزر،موتیا کے پھول،خاموشی، استاد،ہمعمر، جوان فوجی کے نام ماں کا پیغام، شہید بیٹے کا ماں کو پیغام،اصول چاہت، حسن اور محبت، یارم کے جنم دن کے موقع پہ،خود غرضی ، خود کلامی،اے زندگی، عجیب لوگ، اداس دل،خود سے ملنا چاہتی ہوں،امید سحر، پاگل لڑکی،خدمت خلق،رات کے آخری پہر،دسمبر کی اک رات،زندگی اداس ہے۔اے کاش جیسی شاہکار نظمیں اے کاش کی زینت ہیں

لفظوں کی ساحرہ عینی ملک اپنی کتاب کا انتساب اپنی جنت اور روزن فردوس اپنے والدین اور اپنے مان بھائی کے نام کرتی ہیں

اے کاش خوبصورت اور اداس

کاش جو فقط چند الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ جہاں کل ہے۔کھوئے ہوئے ماضی اور گنوائے ہوئے لوگ ، اور کچھ پچھتاوے اور ناآسودہ خواہشات کا سمندر ہوا کرتے ہیں یہ ک ا ش 

شاعرہ عینی  لکھتی ہیں

اے کاش“


اے کاش! میں کوئی پرندہ ہوتی

نہ کل کی فکر نہ سوچ ہوتی

دنیا کے غموں سے میں دور ہوتی

چھوٹی سی عمر ہوتی

خوشیوں کی بہار ہوتی

کاش میں کوئی پرندہ ہوتی

نہ کوئی گلہ نہ شکوہ کرتی

اپنی اڑان میں مست رہتی

پھولوں کی خوشبو ہوتی

پتوں کی سرسراہٹ ہوتی

کاش میں کوئی پرندہ ہوتی

نہ کل کی فکر نہ سوچ ہوتی

بادلوں سے کرتی میں باتیں

پھولوں سے کرتی میں پیار

چمن میرا آشیانہ ہوتا

موسم کی ہوتی بہار

اے کاش ! میں کوئی پرندہ ہوتی

نہ کل کی فکر یہ سوچ ہوتی


وہ کاش جو ہم سب کی زندگیوں میں کہیں ناں کہیں موجود ہے۔پروں اور پرواز کی کاش ، اڈان اور خرم مستی کی کاش لمحوں کی اڈان اور خوشیوں کی بہار

لیکن وہ ہی بات کاش تو ہمیشہ ہی رہ جاتی ہے۔۔۔یاد تو ہمیشہ رہ جاتی ہے اور یادیں بھولائی نہیں جاتی وہ تو دہرائی جاتی ہیں کسی اداس ڈھلتے سورج کی سرخی کو تکتے۔۔۔۔۔چائے کی بھاپ اور بارش کی جل ترنگ سنتے۔۔۔۔۔آنسووں کی نمی اور قہقہوں کی کھوکھلی صداوں میں۔۔۔۔یا یا تنہا بالکونی کی دہلیز پہ کھڑے خاموش چاند کو تکتے جہاں فقط ہماری ذات ہوتی یا تاروں کی ہمراہی میں تنہا چاند

ایسے ہی اداس جذبات کی ترجمانی کرتی یہ نظم


”میں اور چاند“


"رات کا یہ چاند عجیب خاموش لگتا ہے 

کبھی روشنی کا ہالہ بن کر مسکرا تا ہے 

کبھی مدھم کر کے روشنی اپنی مجھے ڈراتا ہے 

کبھی بن بتائے بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے

کبھی لوری ماں جیسی سناتا ہے

کبھی جو میں مسکرا کر دیکھوں تو دوست لگتا ہے

کبھی چپکے سے زمین پر اتر کر

میرے تکیے پر سر رکھ کر سو جاتا ہے۔۔۔۔۔"



اور ایک جگہ۔چاند کو اپنا اکلوتا راز دار ظاہر کرتی ہیں اور اپنے وہ تمام دکھ جو اپنے سے چھپائے جاتے ہیں۔۔۔۔وہ نامکمل چاند کو ہمراز اور ہمعر کہہ کر کہہ دیے جاتے ہیں

لکھتی ہیں

چاند رات

اپنے گرد اجلا ہالہ سجائے

بن شرمائے

ہولے ہولے سے بس مسکرائے۔۔۔۔اور

چھت کے کونے میں بیٹھی

اک اداس لڑکی

اپنے سارے ملال دامن میں ڈالے

اک اک کر کے چاند کو سنا رہی ہے


ایسی کیفیت کی شکار ہونے والی شاعرہ خود کو کہیں پتھر سے زیادہ مضبوط ثابت کرتی ہے کہیں خود کو خود ہی پاگل کہہ دیتی ہے 

شاید ہم سبھی ایسے ہی ہوا کرتے ہیں اپنی ذات میں احساسات میں ۔۔۔۔معروف شاعر عاطف سعید لکھتے ہیں

عجب پاگل سی لڑکی ہے

اور عینی ملک لکھتی ہیں


پاگل لڑکی“


نازک تتلیوں ، پھولوں پرندوں سے 

کھیلنے والی اک لڑکی

اب بڑی خاموش رہتی ہے

اب یہ لڑکی زمین پر ننگے پاؤں بیٹھی ہے

بڑی دیر سے

بالوں سے چہرے کو چھپائے

گردن کومٹی پر جھکائے

اپنی ہاتھوں کی نازک پوروں سے

مٹی پر کچھ لکھ کر مٹا دیتی ہے

بار با عمل مسلسل کرنے کے بعد

وہ مسکرا کر اک لمحے بعد ہی

چہرے کو آنسوؤں میں ڈبوئے 

اپنے انجانے دکھ دھو لیتی ہے 

نازک پرورسی یہ لڑکی

جانے کون سے دکھ سینے میں چھپائے

خدا جانے بے وجہ ہی رو لیتی ہے


عینی ملک کے لکھنے کا انداز اتنا بے ساختہ اور دلاویز ہے کہ اگر ایک دفعہ اپنا اے کاش کو اپنے مطالعہ میں شامل کرئے تو آپ کی عین خواہش اسے ایک نشت میں مکمل کرنے کی ہو گی۔۔کیونکہ شاعرہ نے اپنی نثری نظموں میں بہت خوبصورت انداز میں اپنے حساس جذبات و احساسات  کو پیرائے قلم میں ڈھال کر پیش کیا۔۔

حقیقت کے درد اور الجھنوں کے فریب میں سجی زندگی کی تاریکی میں امید کی شمع کو روشن کر نے پہ عینی ملک کو بہت مبارک باد 

اللہ ان کے قلم میں وسعت عطا کرئے اور مزید کامیاب کرئے

بہت سی نیک تمنائیں آمین

اختتام اس خوبصورت امید پہ کہ 


”امید“


بادلوں سے گھرا ہوا چاند

جہد مسلسل میں مصروف تھا

یخ بستہ رات کا منظر

اب بھی دل میں ضبط تھا

امید کوئی اب تلک باقی تھی

اپنے نور کے اجلے بن کی طاقت دکھا کر اسے بھنور سے نکلنا تھا اندھیروں سے 

خود پھر سے چمکنا تھا

دھرتی پر اپنے تاب و روشن

اجلے پن کو دکھانا تھا

سارے دوست ستارے بھی

بادلوں میں چپ چکے تھے

مگر اسے تن تنہا یہ سفر کرنا تھا

مون و ملال سے بالا تر ہو کر

اسے پھر سے چمکنا تھا

آخر کمال پھر امید نے کر دکھایا تھا 

آخر پھر سے بھر پور مشکل اجلا چاند نظر آیا تھا

Post a Comment

0 Comments